سنہ 1948 میں
NWFP میں 14 اگست کا دن مسلم لیگی کرائے کے حامیوں نے بہت گھن گرج و دھوم سے منایا- لیکن اس سے صرف دو دن پہلے 12 اگست کو ایک بہت دردناک واقعہ رونماء ہوا- 1948 میں جناح صاحب نے ڈاکٹر خان صاحب کی عوامی منتخب شدہ حکومت کو گرا دیا اور NWFP موجودہ خیبر پختون خواہ میں ایک مسلم لیگی کشمیری راہنما سردار عبدالقیوم خان کی حکومت بنوائی گئی- عبدالقیوم خان نے آتے ہی امن پسندی کے داعی باچاء خان کو گرفتار کر لیا- اس طرح جناح صاحب پاکستان کے وہ پہلے سربراہ بنے جنہوں نے سب سے پہلے ایک منتخب کردہ جمہوری حکومت کو گرایا تھا- اسی سلسلے کو بعد میں مختلف گورنر جنرلز اور پھر عسکری راہنماؤں نے جاری رکھا لیکن متخب حکومت کو گرانے کی رسم جناح صاحب سب سے پہلے خود قائم کر گئے تھے-
جولائی 1948 میں صوبائی گورنر نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس میں صوبائی حکومت کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ کسی بھی شخص کو بنا کسی وجہ کے گرفتار کر سکتے ہے اور اس شخص کی ساری جائیداد بھی بحقِ سرکار ضبط کر سکتی ہے- اور پکڑے جانے والے شخص کو اس کے جرم اور جائیداد کی ضبطگی کی وجہ بتانے کی بھی پابندی نہیں- اور گرفتار کئے جانے شخص کو کسی بھی عدالت میں اپیل کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا-
صوبائی گورنر اس آرڈیننس کو جاری کرنے کے احساسِ گناہ سے اتنے شرمندہ تھے کہ انہوں نے صاف لکھا کہ میں یہ آرڈر اپنی مرضی سے نہیں بلکہ گورنر جنرل آف پاکستان مسٹر جناح کے خاص حکم پہ جاری کر رھا ہوں-
اس آرڈیننس کے فوری بعد سینکڑوں مخالفین گرفتار ہوئے، ان پہ تشدد ہوا اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لیں گئیں- گرفتار ہونے والوں میں باچا خان، ڈاکٹر خان صاحب، قاضی عطااللہ، ارباب عبدالغفار خان جیسے نام شامل ہیں- اس آرڈیننس اور اس کے نتیجے میں کی جانے والی گرفتاریوں کے خلاف خدائی خدمت گار تحریک نے 12 اگست 1948 کو چارسدہ سے بھابڑہ تک ایک پرامن مارچ کا اعلان کیا- اس مارچ کا اعلان کافی پہلے اس وقت کے تمام بڑے اخبارات میں کر دیا گیا اور تمام شرکاء سے اپیل کی گئی کہ اس امن مارچ میں خالی ہاتھ شرکت کی لیے آیا جائے- اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ مارچ میں ایک ڈنڈہ بردار بھی نہیں آنے دیا گیا- حکومت کی طرف سے اس مارچ کے اعلان پہ کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ کیا گیا- جونہی ہزاروں بوڑھے بچے جوان ادھیڑ عمر شرکاء موقع پہ اکٹھے ہوئے تو وزیر اعلی سردار عبدالقیوم خان خود موقع پہ پولیس اور مسلح ملیشیاء کی بھاری نفری لے کر وہاں پہنچ گئے اور مارچ کے شرکاء کو گھیرے میں لے لیا گیا لیکن ان کا امن مارچ جاری رھا-
NWFP میں 14 اگست کا دن مسلم لیگی کرائے کے حامیوں نے بہت گھن گرج و دھوم سے منایا- لیکن اس سے صرف دو دن پہلے 12 اگست کو ایک بہت دردناک واقعہ رونماء ہوا- 1948 میں جناح صاحب نے ڈاکٹر خان صاحب کی عوامی منتخب شدہ حکومت کو گرا دیا اور NWFP موجودہ خیبر پختون خواہ میں ایک مسلم لیگی کشمیری راہنما سردار عبدالقیوم خان کی حکومت بنوائی گئی- عبدالقیوم خان نے آتے ہی امن پسندی کے داعی باچاء خان کو گرفتار کر لیا- اس طرح جناح صاحب پاکستان کے وہ پہلے سربراہ بنے جنہوں نے سب سے پہلے ایک منتخب کردہ جمہوری حکومت کو گرایا تھا- اسی سلسلے کو بعد میں مختلف گورنر جنرلز اور پھر عسکری راہنماؤں نے جاری رکھا لیکن متخب حکومت کو گرانے کی رسم جناح صاحب سب سے پہلے خود قائم کر گئے تھے-
جولائی 1948 میں صوبائی گورنر نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس میں صوبائی حکومت کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ کسی بھی شخص کو بنا کسی وجہ کے گرفتار کر سکتے ہے اور اس شخص کی ساری جائیداد بھی بحقِ سرکار ضبط کر سکتی ہے- اور پکڑے جانے والے شخص کو اس کے جرم اور جائیداد کی ضبطگی کی وجہ بتانے کی بھی پابندی نہیں- اور گرفتار کئے جانے شخص کو کسی بھی عدالت میں اپیل کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا-
صوبائی گورنر اس آرڈیننس کو جاری کرنے کے احساسِ گناہ سے اتنے شرمندہ تھے کہ انہوں نے صاف لکھا کہ میں یہ آرڈر اپنی مرضی سے نہیں بلکہ گورنر جنرل آف پاکستان مسٹر جناح کے خاص حکم پہ جاری کر رھا ہوں-
اس آرڈیننس کے فوری بعد سینکڑوں مخالفین گرفتار ہوئے، ان پہ تشدد ہوا اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لیں گئیں- گرفتار ہونے والوں میں باچا خان، ڈاکٹر خان صاحب، قاضی عطااللہ، ارباب عبدالغفار خان جیسے نام شامل ہیں- اس آرڈیننس اور اس کے نتیجے میں کی جانے والی گرفتاریوں کے خلاف خدائی خدمت گار تحریک نے 12 اگست 1948 کو چارسدہ سے بھابڑہ تک ایک پرامن مارچ کا اعلان کیا- اس مارچ کا اعلان کافی پہلے اس وقت کے تمام بڑے اخبارات میں کر دیا گیا اور تمام شرکاء سے اپیل کی گئی کہ اس امن مارچ میں خالی ہاتھ شرکت کی لیے آیا جائے- اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ مارچ میں ایک ڈنڈہ بردار بھی نہیں آنے دیا گیا- حکومت کی طرف سے اس مارچ کے اعلان پہ کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ کیا گیا- جونہی ہزاروں بوڑھے بچے جوان ادھیڑ عمر شرکاء موقع پہ اکٹھے ہوئے تو وزیر اعلی سردار عبدالقیوم خان خود موقع پہ پولیس اور مسلح ملیشیاء کی بھاری نفری لے کر وہاں پہنچ گئے اور مارچ کے شرکاء کو گھیرے میں لے لیا گیا لیکن ان کا امن مارچ جاری رھا-
اس اجتجاج کے جواب میں مارچ پہ اندھا دھن فائر کھول دیا گیا- دیہات کی ان رہنے والوں کی عورتیں اپنے مردوں کو زمین پہ تڑپتا دیکھ کر اپنے سروں پہ قرآن رکھ کر آئیں لیکن ان کی فریادوں سے بھی کسی کے کان پہ جوں نہ رینگی اور وہ بھی ایسے ہی بےرحمی سے قتل کر دی گئیں- غیر مسلح لوگ بنا کسی عمر اور جنس کے امتیاز کے قتل کئے گئے- (یعنی عورتیں بچے مرد بوڑھے سبھی کو بےرحمی سے مار دیا گیا)-
45 منٹ بعد فائرنگ رکی اور دھواں صاف ہوا تو اس محتاط اندازے کے مطابق وہاں 500 سے 600 لاشیں تھیں اور 1000 سے 1200 زخمی تھے-
عینی شاہدین کے مطابق جان بحق ہونے والوں کی تعداد تقریبا 1300 تھی- 250 لاشوں کو جان بحق و زخمی کی تفریق کئے بغیر دریا میں پھینک دیا گیا جن میں بہت سے زخمی ڈوب گئے اور بہت سوں کی لاشیں کبھی نہ مل سکیں- قتل کئے جانے والوں کی اصل تعداد کا کبھی شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قتل عام کے بعد جو کیا گیا وہ اس سے بھی ذیادہ غیر انسانی سلوک تھا- بہت سے لوگوں نے حکومت کے ڈر سے اپنی زبانیں بند رکھیں- (یا شاید بند کروائی گئیں)-
اپنی اس بےمثال بے رحمی کی وجہ سے عبدالقیوم خان کو "ڈبل بیرل خان" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے-
ستمبر 1948 میں وزیراعلی عبدالقیوم خان نے صوبائی اسمبلی میں یہ آفیشل بیان دیا-
"میں نے بھابڑہ میں سیکشن 144 کا نفاظ کر دیا تھا اور جب لوگ منتشر نہ ہوئے تو میں نے فائر کھلوا دیا- وہ خوش قسمت تھے کہ پولیس کا ایمونیشن ختم ہو گیا ورنہ ایک بھی جان زندہ نہ بچتی"
پھرطعبدالقیوم خان نے اپوزیشن کے چار ارکان کی طرف اشارہ کرتے ہوا کہا "اگر یہ بھی وہاں مارے جاتے تو حکومت کوئی پرواہ نہ کرتی"
اس مسئلے پہ بادشاہ خان نے 20 مارچ 1954 کو صوبائی اسمبلی کے بجٹ سیشن سی خطاب کرتے ہوئے کہا،
"میں نے 6 سال پہلے اس اسمبلی کے فرش پہ کھڑے ہو کر کہا تھا کہ پاکستان ہمارا وطن ہے، اس کی سالمیت اور حفاظت ہماری زمہ داری ہے - پاکستان کی تعمیر اور ترقی کے لئے سامنے لایا جانے والا کسی بھی پارٹی کا کوئی بھی منصوبہ ہو، میں اس کی حمایت کروں گا- میں آج دوبارہ ان الفاظ کو دھرا رھا ہوں لیکن پھر بھی یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو میری وفاداری پہ شک کرتے ہیں- اس لئے میرا یہ خیال ہے کہ بہتر ہو گا کہ نہ صرف وفاداری و غداری جانچنے کے لئے ایک ٹریبیونل بنایا جائے بلکہ چارسدہ میں ہونے والے قتل عام، لوٹ مار، جلاؤ اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی کئے جانے والی بےعزتی اور جیلوں میں ہمارے ساتھ کئے جانے والے سلوک پہ بھی ایک ٹریبیونل بنایا جائے"
جولائی 1950 میں ڈھاکہ میں ایک بڑے اجتماع خطاب کرتے ہوئے عوامی لیگ کے سربراہ سہروردی صاحب نے کہا تھا کہ
"سرخ قمیض والوں کا جو قتل عام 1948 میں چارسدہ میں کیا گیا، وہ تاجِ برطانیہ کی جانب سے 1919 میں جلیانوالہ باغ سے کہیں ذیادہ گھناؤنا اور بےرحم تھا"
Refrences: From "Prisms and Prisons: Religion, Abdul Ghaffar Khan, and the Khudai Khidmatgars" by Damon Lynch.
The Pathan Unarmed: Opposition and Memory in the Khudai Khidmatgar Movement
by Mukulika Banerjee
Political Conspiracies in Pakistan by Jamna Das Akhtar
The "Khudai Khidmatgar" (Servants of God) by abdul karim khan
Khudai Khidmatgar by Frederic P. Miller, Agnes F. Vandome, John McBrewster
45 منٹ بعد فائرنگ رکی اور دھواں صاف ہوا تو اس محتاط اندازے کے مطابق وہاں 500 سے 600 لاشیں تھیں اور 1000 سے 1200 زخمی تھے-
عینی شاہدین کے مطابق جان بحق ہونے والوں کی تعداد تقریبا 1300 تھی- 250 لاشوں کو جان بحق و زخمی کی تفریق کئے بغیر دریا میں پھینک دیا گیا جن میں بہت سے زخمی ڈوب گئے اور بہت سوں کی لاشیں کبھی نہ مل سکیں- قتل کئے جانے والوں کی اصل تعداد کا کبھی شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قتل عام کے بعد جو کیا گیا وہ اس سے بھی ذیادہ غیر انسانی سلوک تھا- بہت سے لوگوں نے حکومت کے ڈر سے اپنی زبانیں بند رکھیں- (یا شاید بند کروائی گئیں)-
اپنی اس بےمثال بے رحمی کی وجہ سے عبدالقیوم خان کو "ڈبل بیرل خان" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے-
ستمبر 1948 میں وزیراعلی عبدالقیوم خان نے صوبائی اسمبلی میں یہ آفیشل بیان دیا-
"میں نے بھابڑہ میں سیکشن 144 کا نفاظ کر دیا تھا اور جب لوگ منتشر نہ ہوئے تو میں نے فائر کھلوا دیا- وہ خوش قسمت تھے کہ پولیس کا ایمونیشن ختم ہو گیا ورنہ ایک بھی جان زندہ نہ بچتی"
پھرطعبدالقیوم خان نے اپوزیشن کے چار ارکان کی طرف اشارہ کرتے ہوا کہا "اگر یہ بھی وہاں مارے جاتے تو حکومت کوئی پرواہ نہ کرتی"
اس مسئلے پہ بادشاہ خان نے 20 مارچ 1954 کو صوبائی اسمبلی کے بجٹ سیشن سی خطاب کرتے ہوئے کہا،
"میں نے 6 سال پہلے اس اسمبلی کے فرش پہ کھڑے ہو کر کہا تھا کہ پاکستان ہمارا وطن ہے، اس کی سالمیت اور حفاظت ہماری زمہ داری ہے - پاکستان کی تعمیر اور ترقی کے لئے سامنے لایا جانے والا کسی بھی پارٹی کا کوئی بھی منصوبہ ہو، میں اس کی حمایت کروں گا- میں آج دوبارہ ان الفاظ کو دھرا رھا ہوں لیکن پھر بھی یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو میری وفاداری پہ شک کرتے ہیں- اس لئے میرا یہ خیال ہے کہ بہتر ہو گا کہ نہ صرف وفاداری و غداری جانچنے کے لئے ایک ٹریبیونل بنایا جائے بلکہ چارسدہ میں ہونے والے قتل عام، لوٹ مار، جلاؤ اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی کئے جانے والی بےعزتی اور جیلوں میں ہمارے ساتھ کئے جانے والے سلوک پہ بھی ایک ٹریبیونل بنایا جائے"
جولائی 1950 میں ڈھاکہ میں ایک بڑے اجتماع خطاب کرتے ہوئے عوامی لیگ کے سربراہ سہروردی صاحب نے کہا تھا کہ
"سرخ قمیض والوں کا جو قتل عام 1948 میں چارسدہ میں کیا گیا، وہ تاجِ برطانیہ کی جانب سے 1919 میں جلیانوالہ باغ سے کہیں ذیادہ گھناؤنا اور بےرحم تھا"
Refrences: From "Prisms and Prisons: Religion, Abdul Ghaffar Khan, and the Khudai Khidmatgars" by Damon Lynch.
The Pathan Unarmed: Opposition and Memory in the Khudai Khidmatgar Movement
by Mukulika Banerjee
Political Conspiracies in Pakistan by Jamna Das Akhtar
The "Khudai Khidmatgar" (Servants of God) by abdul karim khan
Khudai Khidmatgar by Frederic P. Miller, Agnes F. Vandome, John McBrewster
posted from Bloggeroid
چارسدہ سانحہ میں قائداعظم کانام لینا غلط ہےوہ6جولائی سےدوبارہ زیارت میں تھے انکی حالت انتہائی خراب تھی انکا وزن صرف36کلو رہ گیاتھا وہ نیم بےہوشی میں تھےکسی وقت ایک آدھ جملہ مشکل سے بولتے تھےحکومت سے رابطہ صرف ڈاکٹروں کا تھا سانس میں دشواری کے سبب13اگست کو زیارت سےکوئٹہ منتقل کیا گیا
ReplyDelete