وسعت اللہ خان بی بی سی اردو
پاکستان کہتا ہے سنہ 1965 کی جنگ وہ جیتا۔ بھارت کہتا ہے وہ جیتا۔ تو پھر ہارا کون ؟ اگر دونوں طرف کے سرکاری مورخوں کو زیادہ تنگ کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہماری جیت یہ ہے کہ ہم نے دوسرے کو نہیں جیتنے دیا۔
بھارت کہتا ہے کہ سنہ 65 کی جنگ دراصل پانچ اگست کو شروع ہوئی جب پاکستان کی طرف سے آٹھ سے 10 ہزار کشمیری سویلین رضاکاروں اور سادہ لباس فوجیوں پر مشتمل جبرالٹر فورس بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بغاوت ابھارنے کے لیے بھیجی گئی اور جب آپریشن جبرالٹر ناکام ہوگیا تو بھارت نے آگے بڑھ کر حاجی پیر ، کارگل اور ٹیٹوال کے دروں پر قبضہ کرلیا۔
اس جوابی کارروائی کا زور توڑنے کے لیے پاکستان نے یکم ستمبر کو اکھنور اور جموں پر قبضے کے لیے آپریشن گرینڈ سلام شروع کیا اورگرینڈ سلام کا دباؤ توڑنے کے لیے بھارت نے چھ ستمبر کو لاہور سیالکوٹ سیکٹر میں بین الاقوامی سرحد پار کر لی۔
مگر پاکستان کی سرکاری تاریخ پڑھی جائے تو لگتا ہے جنگ چھ ستمبر کو شروع ہوئی۔
آپریشن جبرالٹر اور گرینڈ سلام کا کوئی ذکر ہی نہیں اور نہ آج تک اس راز سے پردہ اٹھا کہ جب کشمیر کو بھارت سے کاٹنے کے لیے اکھنور کی جانب پیش قدمی تیزی سے جاری تھی تو اسے اچانک کیوں روک کر آپریشن گرینڈ سلام کے خالق اختر حسین ملک کی جگہ میجر جنرل یحییٰ خان کو کمان دے دی گئی اور پھر نئے کمانڈر نے کیا تیر چلا لیا۔
بقول جنرل گوربخش سنگھ، اکھنور کی جانب پاکستانی پیش قدمی کا 36 گھنٹے تک خود بخود رک جانا ہمارے لیے آسمانی مدد کے برابر تھی۔
کچھ اور سوالات بھی 50 برس بعد جواب طلب ہیں۔
مثلاً سنہ 1965 کی جنگ کا مقصد اگر کشمیر کی آزادی تھا تو کیا آپریشن جبرالٹر سے پہلے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں آزادی پسند قیادت کو پیشگی اعتماد میں لیا گیا؟
یا پھر فرض کرلیا گیا کہ عام کشمیری اپنے نجات دھندوں کو دیکھتے ہی بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہی تجربہ کیا اکتوبر سنہ 1947 میں ناکام نہیں ہوا تھا؟
بھٹو ، عزیز احمد ، میجر جنرل اختر حسین ملک ، ایوب خان اور جنرل موسی آخر کس مفروضے پر یہ جنگی پلان بنا رہے تھے کہ لڑائی کشمیر تک ہی محدود رہے گی اور بھارت بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کی حماقت نہیں کرے گا۔
لہذا نہ ائیر فورس اور بحریہ کو اس پلان میں شریک کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی لاہور اور سیالکوٹ کی ڈویثرنل کمان کو فارورڈ پوزیشنز پر بھیجنے کے احکامات کی ضرورت، اور نہ ہی چھٹی پرگئے 25 فی صد جوانوں اور افسروں کو طلب کرنے کی ضرورت، اور نہ ہی گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان کو کچھ بتانے کی ضرورت، اور نہ ہی اس فکر کی ضرورت کہ بھارت نے اگر دوسرا محاذ مشرقی پاکستان کی طرف سے کھول دیا تو کیا ہوگا؟ ( یہ وہ سوال تھا جس نے بنگالیوں کا دل اور چھید دیا)۔
کیا جنگ سے پہلے ہائی کمان نے سوچا کہ پاکستان کے پاس کتنے دن کا اسلحہ اور گولہ بارود ہے اور جنگ طول پکڑتی ہے تو کیا ہوگا؟
جنگ ہمیشہ خاص قومی اہداف حاصل کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ اگر پاکستان کا ہدف کشمیر تھا تو ہدف حاصل کیے بغیر کامیابی کس بات کی؟
معاہدہ تاشقند کے تحت بھارت نے 710 مربع میل علاقہ پاکستان کو اور پاکستان نے210 مربع میل علاقہ بھارت کو واپس کیا اور دونوں ممالک کی فوجیں پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلی گئیں۔
پاکستان معاہدہِ تاشقند میں اقوامِ متحدہ کے تحت کشمیر میں رائے شماری کا وعدہ تک شامل نہ کروا پایا۔ یوں یہ مسئلہ مزید ناقابلِ حل ہوتا چلا گیا۔
آپریشن جبرالٹر کے دوران کتنے پاکستانی جان سے گئے؟ ان کی قربانیوں کے بارے میں عسکری تاریخ خاموش ہے۔ بس یہ بتایا جاتا ہے کہ چھ سے 22 ستمبر تک3800 پاکستانی فوجیوں اور 5500 کے لگ بھگ ہندوستانی فوجیوں کی جان گئی اور اتنے طیارے اور اتنے ٹینک تباہ ہوئے۔
بظاہر نہ پاکستان کے پاس کوئی حقیقی جنگی پلان تھا نہ بھارت کے پاس۔ شاید اسی لیے دونوں ممالک نے 17 دن بعد ہی اقوامِ متحدہ کی جنگ بندی قرارداد فوراً مان لی ۔
لیکن انفرادی سطح پر جرات و بہادری کی داستانیں بہرحال رقم ہوئیں۔ ایک جانب اگر پاکستان کی ناقص جنگی پلاننگ نے بھارت کو سنبھالا دیا تو دوسری جانب پاکستانی فضائیہ اور آرمڈ دستوں نے بھارت کو روکنے میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ جنگ ریڈیو پاکستان اور آکاش وانی پر بھی خوب لڑی گئی۔ اس جنگ کے طفیل بھارت میں ہندی میں اور پاکستان میں اردو اور پنجابی میں لہو گرما دینے والے جنگی ترانے تخلیق ہوئے۔ ہو سکتا ہے سندھی ، پشتو ، بلوچی اور بنگالی میں بھی ترانے گائے گئے ہوں مگر یہ فقیر لاعلم ہے۔
بھارت نے اپنی جنگی ناکامیوں کے بعد خاموشی سے حکمتِ عملی تبدیل کی جس کا نتیجہ سنہ 1971 کی جنگ میں نکلا۔ جبکہ پاکستانی قیادت نے سنہ 65 کی جنگ میں بیرونی تو کیا ان ہاؤس تحقیقات کی زحمت بھی نہیں کی۔
کئی برس بعد لیفٹننٹ جنرل ( ریٹائرڈ ) محمود احمد نے ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل تحقیقی مسودہ لکھا مگر وہ بھی کتابی شکل میں ڈھلنے کی اجازت نہ پا سکا۔ شاندار فتح کے نصابی و سرکاری پروپیگنڈے تلے سب دب دبا گیا۔
چنانچہ سنہ 1971 کی جنگ بھی ویسی ہی ناقص منصوبہ بندی کے تحت لڑی گئی اور پھر کارگل کی لڑائی بھی سنہ 1948 اور 1965 کی فوجی حکمتِ عملی کی فوٹو کاپی سامنے رکھ کے لڑی گئی۔ نتائج آپ کے سامنے ہیں۔
بھارت میں اگر مودی سرکار عوام کے سامنے خود کو سمراٹ اور دبنگ دکھانے کے لیے اچانک سے سنہ 1965 کی ’شاندار فتح‘ کی گولڈن جوبلی ایجاد نہ کرتی تو پچاس برس سے کم عمر بیشتر بھارتیوں کو شاید یہی معلوم نہ ہوتا کہ ایسی کوئی جنگ ہوئی بھی تھی۔ کیونکہ پاکستان کے برعکس بھارت میں کبھی بھی 1965 کی جنگ کی قومی سطح پر سالگرہ منانے کا رواج نہیں رہا۔
اگر نصف صدی بعد بھی بھارت اور پاکستان سرکاری سطح پر جنگی سچ کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تو اس سے بڑی شکست اور کیا ہو گی؟
No comments:
Post a Comment