مُلا عمر مجاہدؒ
خدایا وہ زندہ کبھی اُن ظالموں کے ہاتھ نہ آئے..
’’خدایا اِس امت کی لاج رکھ؛ اِس شخص کو کبھی اُن کے آگے سرنگوں نہ ہونے دے..
’’خدایا ا س کے مٹھی بھر مجاہدوں کو دیارِ افغان پر حملہ آور صلیبی افواج پر فتحیاب کر اور اس کی بےسروسامانی کی تلافی اپنی قوت سے فرما..‘‘
ڈیڑھ عشرے تک امتِ محمدؐ کے صالحین کی یہ دعائیں لیتا رہنے والا سر بکف، سر بلند مجاہد امیر ایک طویل قربانیوں سے لبریز زندگی گزار، آج اپنے رب کے پاس ہے۔ اُسکے تپ دق (TB) کے علاج کو اِس بھری دنیا میں کوئی اسپتال نہ تھا! دنیا کی سب توجہ اُس کی ’آشفتہ سری‘ پر رہی جو اِس کے ڈرونوں سے نہ جا سکی! رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً۔
اِس دنیا سے کس نے نہیں جانا! مگر کچھ لوگ ہیں جو خدا کے ساتھ اپنی محبت اور وفاداری کی مُہر صفحۂ تاریخ پر ثبت کروا کر جاتے ہیں۔ اور بھری دنیا ان کے اِس وثیقہ پر گواہ! بڑے سالوں اور عشروں تک، خدا کے دشمن ایک شخص کے خون کے پیاسے رہتے اور اس کی تلاش میں باؤلے، اپنی ٹیکنالوجی کے سب ذرائع جھونکتے، زمین کا چپہ چپہ چھانتے ہیں، جبکہ خدا کے دوست اتنا ہی عرصہ اُس کی خیریت و عافیت کےلیے خدا کے حضور ہاتھ اٹھائے رہتے ہیں! ’ٹیکنالوجی‘ اور ’توکل‘ کے مابین ایک ڈیڑھ عشرہ طویل گرم جنگ!
حق اور باطل کی یہ جنگ تو قیامت تک رکنے والی نہیں۔ لیکن کچھ لوگ ہیں جو اپنے زمانے میں حق و باطل کی اِس جنگ کا باقاعدہ عنوان ہوتے ہیں! غیرتِ دینی، حمیتِ ایمانی، امت کی عزت اور آبرو کچھ دیر کےلیے انہی کا دوسرا نام ہوتا ہے!
خدایا ہم شہادت دیتے ہیں، ہم نے تیرے ایک بندے ملا عمر مجاہد کو اپنے دور کا ایسا ہی ایک کردار پایا ہے۔ ’تیرے دین کی سربلندی‘ اور ’ملا عمر مجاہد‘ تیری زمین کے اس افغانستان نامی گوشے میں کوئی دو الگ الگ نام نہیں رہ گئے تھے۔ اُس کا جینا اور مرنا، اُس کا ٹوٹنا اور جُڑنا، اُس کی محبت اور اُس کا بغض، اُس کی دوستی اور اُس کی دشمنی، اُس کا دینا اور نہ دینا، اُس کا ماننا اور اُس کا ’اَڑ جانا‘، اُس کا لڑنا اور اُس کا روپوش رہنا، اُس کی سب تگ و تاز.. تیرے کلمہ کی نصرت تھی اور اُس کی سب قربانیاں تاریخ کے اِس منفرد ترین عہد میں تیرے دین کی اقامت اور تیرے دشمن کے کلمہ کو پست کرنا۔ وأنت أعلم بِسِرّہٖ وعلانیتہ، فاغفر لہ وارحمہ، إنک أنت الغفور الرحیم۔
*****
ایسا کردار شاید ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے، مگر ہم نے اسے اپنے عہد میں دیکھا! سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسماعیل دہلویؒ ایسی شخصیات کا مطالعہ آج ہم اپنی کتابوں اور نصابوں کے اندر ہی تو کرتے ہیں! لکھنے والوں نے لکھا کہ: برصغیر کے مسلمانوں کے پاس خدا کو دکھانے کےلیے اگر کچھ ہے تو وہ چند سال جب سید احمد بریلوی کی قیادت میں انہوں نے خدا کی شریعت کی اقامت کی ایک ایسی دل آویز تصویر پیش کی جو خلافت راشدہ کی یاد دلاتی تھی۔ لکھنے والے یقینی طور پر اب اُن چند دل آویز سالوں کے ساتھ اِن چند تابناک سالوں کا بھی ذکر کریں گے جو خطۂ افغانستان میں ملاعمر مجاہدؒ کی قیادت میں اہل اسلام کو نصیب ہوئے اور جنہیں دیکھ کر اہل اسلام کو بجاطور پر اپنا خلافتِ راشدہ کا عہد یاد آ جاتا رہا ہے۔ اقامتِ شریعت، عدل و انصاف، امن، سادگی، جوابدہی اور احتساب کی ایسے دل آویز مناظر کہ آدمی کو یقین ہی نہ آئے یہ امت اپنے گزرے ہوئے عہد کو ایک اتنے طویل دورِ زوال کے بعد اِس کامیابی کے ساتھ واپس لا سکتی ہے۔
امت کی کھوئی ہوئی امیدوں کو بحال کر لانے اور عہدِ رفتہ کو اپنے دور میں واپس لے آنے میں اس شخص کا جو کردار رہا وہ بڑوں بڑوں کو حیران کر گیا۔ اقامتِ شریعت کا اتنا عظیم اور اتنا کامیاب مظاہرہ، کون اس کا یقین کر سکتا تھا! بہت سی تحریکوں نے شروع میں اس کو یوں دیکھا گویا وہ کل کا بچہ ہو، مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ اِن سب پر بازی لے گیا! بڑے لوگ اِس امت میں اُس سے بڑھ کر علم والے ہوں گے۔ بڑے لوگ اُس سے بڑھ کر صلاحیتوں والے ہوں گے۔ دیکھنے والوں نے بیان کیا، وہ ایک بےحد سادہ آدمی تھا اور اُسے اپنی بابت کوئی زعم نہیں تھا۔ علماء کے آگے یوں فرشِ راہ گویا نورالدین زنکیؒ ! مگر وہ عزم و ہمت کا ایک پہاڑ تھا جسے دنیا کی سپریم طاقت لرزا نہ سکی۔ اُس کا حوصلہ ہمالیہ سے اونچا تھا۔ بحر ہند میں صف آرا صلیبی بحری بیڑوں سے اٹھنے والے طیاروں اور اسلحوں کی گھٹائیں ڈیڑھ عشرے تک اِس ہمالیہ وہندوکش سے ٹکراتی رہیں لیکن یہ ہمالیہ جوں کا توں رہا۔ درجنوں کافر ملک مل کر اپنے ہتھیاروں کا زور لگا بیٹھے مگر اس کے عزم کو شکست نہ دے سکے۔ ہاں مگر اس کے عزم نے ایک ایک کر کے ان سب کو شکست دے ڈالی اور ملتِ صلیب کے لشکر ناکام و نامراد اس کی سرزمین سے نکلنے کی تیاری کرنے لگے۔ ٹیکنالوجی کے مقابلے پر ایمان کی قوت! اُس کے مجاہد اپنی منزل کے بےحد قریب آ لگے تھے کہ خدا نے اپنے اِس بندے کو اپنے پاس بلا لیا! خدایا ہم تیری تقدیر پر راضی ہیں۔
إن العین تدمع، وإن القلب یحزن، ولا نقول إلا ما یُرضِی ربَّنا، وإنا بفراقک أیھا القائد المجاھد لمحزونون۔
آنکھ روتی ہے۔ دل افسردہ ہے۔ مگر ہماری زبان پر ہرگز کوئی کلمہ نہ آئے گا سوائے وہ جس سے ہمارا پروردگار راضی ہو۔ اے مجاہد امیر! تیرے فراق پر ہم بےحد غمگین ہیں۔
إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ اللھم أۡجرنا فی مصیبتنا، واخلفنا خیرًا منہ۔
ہم خدا کی چیز ہیں اور خدا کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔ خدایا ہماری اِس مصیبت کی تلافی فرما اور ہمیں اس کا بہتر بدل دے۔
خدایا! ہمارا سہارا پہلے بھی تیرے سوا کوئی نہیں تھا اور آج بھی تیرے سوا کوئی نہیں۔ أنت مولانا، فنعم المولیٰ ونعم النصیر۔
*****
ملا عمر مجاہد تاریخ کے کس باب کاعنوان تھا؟
نوّے کی دَہائی شروع ہوئی تو سوویت بلاک زمیں بوس ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ افغانستان میں اسلام کے شیروں کی بہادری اور جانفروشی کے دم سے ہوا جو اَسّی کا پورا عشرہ جاری رہی تھی۔ مگر ضیاء الحق اور عبداللہ عزام کی ناگہانی شہادت، پاکستانی سیاست کے منظرنامے پر ’الذولفقار‘ کی باقیات کے یکایک ظہور، اور افغان قیادتوں کے باہم دست وگریبان ہوجانے اور افغان جہاد کے ثمرات کو مقامی طور پر بھی نہ سمیٹ پانے کے نتیجے میں… دنیا اب یہ تصویر یوں دیکھ رہی تھی کہ روس کو گرانے کےلیے درکار مسلم جذبہ محض امریکہ کی ایک جنگ جیتنے کے کام آیا ہے اور دنیا یکلخت ایک ’یونی پولر ورلڈ‘ میں ڈھل گئی ہے۔ تب ملتِ صلیب دنیا کی واحد سپرپاور تسلیم ہونے لگی۔ یہ نوّے کی دہائی کے ابتدائی سال ہی تھے کہ دنیا کا ہر اخبار ’نیوورلڈآرڈر‘ کی نوید سنا رہا تھا۔ نیوورلڈآرڈر جس کا ترجمہ ہمارے کچھ فکرمند حلقوں کے ہاں یوں کیا جا رہا تھا گویا عملاً دجال نکل آیا ہے۔ امریکہ اپنی تنی گردن کے ساتھ جہانِ انسانی کو ایک نیا بیانیہ narrative جاری کر کے دے رہا تھا اور کسی کی ہمت نہ تھی کہ روس کے ہاتھ کھڑے کر دینے کے بعد وہ امریکہ کی سنی ان سنی کر دے۔ وہ اور اُس کے صلیبی اتحادی اپنی طاقت کے نشے میں دھت، مسلمانوں کے مرکز جزیرۂ عرب پر اپنی فوجیں اور بحری بیڑے چڑھا لائے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے عالم عرب کی سب سے طاقتور فوج ’عراقی آرمی‘ کو بیٹھی بطخوں sitting ducks کی طرح بھون ڈالا۔ ’نئے مشرقِ وسطیٰ‘ کا نقشہ گویا پریس میں چھپنے کےلیے جا چکا تھا۔ فوکویاما نے “The End of the History” کے بگل بجا ڈالے۔ امریکی دانشور کی یہ ایک کتاب تھی جس میں گویا اعلان کر دیا گیا کہ لبرل سرمایہ داری بلاک کی اس حیرت انگیز فتح کے بعد دنیا کےلیے اب کچھ نیا دیکھنا باقی نہیں رہ گیا ہے۔ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے جہان میں اب لبرل ڈیموکریسی ہی راج کرے گی اور کسی کو مجال نہیں کہ ’مغرب سے ابھرتے ہوئے‘ اس سورج کو پوجنے سے انکار کرے۔ سہمے ہوئے عرب امریکہ بہادر کی انگلی پکڑے میڈریڈ اور اوسلو وثیقوں پر انگوٹھا لگانے جا پہنچے اور اس کے علاوہ بھی ہر ’ہدایت‘ پر عمل کرنے کےلیے منتظرِ اشارہ! اسرائیل کی شرطوں پر مشرقِ وسطیٰ کے سب معاملات نمٹائے جانا ٹھہر گیا تھا۔ پورا عالم عرب اب اسرائیل کی کالونی ہوگی، مستقبل کی یہ ڈ راؤنی تصویر ہر کسی کو نظر آ رہی تھی۔ پورے پورے کالم اس مضمون کے چھپنے لگے تھے کہ: عالم عرب کی تجارتی منڈیاں اور مادرہائے علمی نیز یہاں کے ثقافتی مراکز آئندہ سے تل ابیب کے یہود کے سپرد ہوں گے، عین اسی طرح جس طرح شمالی امریکہ کی منڈیاں، یونیورسٹیاں اور وہاں کا میڈیا اور شوبزنس نیویارک کے یہود کی دسترس میں ہے۔ یعنی تل ابیب کے یہودی کو مراکش اور تیونس سے لے کر یمن تک کی جامعات میں اور یہاں کی تجارتی وثقافتی سرگرمی میں ویسی ہی مؤثر رسائی حاصل ہوگی جیسی رسائی نیویارک کے یہودی کو کیلی فورنیا اور ٹورونٹو سے لے کر فلوریڈا تک کے تجارتی و تعلیمی وثقافتی مراکز پر حاصل ہے۔
مسلم مشرق وسطیٰ خاص طور پر، اور مسلم دنیا عمومی طور پر، ’جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘ صاف طور پر اپنے سامنے دیکھ رہی تھی۔ پائے ماندن نہ جائے رفتن۔
اس اندھیری رات میں امید کی دو کرنیں سامنے آئیں:
ایک فلسطین کی ’’انتفاضہ‘‘، جو اَسّی کے دہائی کے اواخر میں ہی بیت المقدس کے اطراف و اکناف کروٹیں لینے لگی تھی اور نوّے کے اواخر تک پہنچتےپہنچتے خوب جوان اور توانا نظر آنے لگی۔ دراصل یہ عالمی جہاد کا وہ سورج تھا جو اَسّی کی دہائی کے اواخر میں افغانستان کے اندر ڈوبتا نظر آیا تو فلسطین میں جاطلوع ہوا۔ ’’انتفاضہ‘‘ کی لہروں پر جلد ہی ’’حرکۃ المقاومۃ الإسلامیۃ‘‘ (مخفف: ’’حماس‘‘) جلد ہی اپنا ظہور کرنے لگی، جسے بعدازاں ارضِ بیت المقدس کی منظم ترین جہادی جماعت ہونا تھا۔
دوسری ’’تحریک طالبان افغانستان‘‘ جو نوّے کی دہائی کے وسط میں قندھار کی سرزمین سے کسی زورآور گھٹا کی طر ح اٹھ رہی تھی اور اس کی پیش قدمی کے آگے افغانستان کے سب قلعے اور شہر لرز رہے تھے۔
اول الذکر نے تل ابیب کے خواب چکناچور کر ڈالے۔ اور ثانی الذکر نے واشنگٹن کو اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا کرديا۔ نيز.. نئی دہلی اسے دیکھ دیکھ کر ہول کھا رہی تھی۔ دونوں تحریکیں عسکری قوت ہونے کے علاوہ ايك سیاسی وسماجی تاثیر کی مالک تھیں۔
وہ سارا معاملہ جو ہمارے اِس خطے میں افغان جہاد کو اُس کے طبعی انجام تک پہنچانے کے حوالے سے ضیاءالحقؒ اور عبداللہ عزامؒ کی شہادت کے نتیجے میں دھرا کا دھرا رہ گیا تھا بلکہ ایک بہت بڑے بحران کی صورت دھار گیا تھا، یہاں تک کہ دنیابھر کی کافر قوتیں افغانستان میں اپنےاپنے مفادات کی خاطر کھیلنے لگی تھیں.. ’تحریکِ طالبان افغانستان‘ کی صورت میں اس کے ایک بڑے حصے پر نہ صرف کامیابی کے ساتھ قابو پا لیا گیا بلکہ پیش قدمی کی ایک نہایت اعلیٰ صورت بھی سامنے آگئی تھی۔ یہ روس کے خلاف لڑے جانے والے افغان جہاد کا ایک حوصلہ مند و توانا عنصر تھا جو مفادات کی سیاست کے آگے سپر ڈالنے پر آمادہ نہ تھا ۔ افغانستان کا یہ نوجوان جس کی مسیں روس کے خلاف جہاد کے دوران بھیگی تھیں، اپنی قوم کے قربانیوں سے لبریز جہاد کو اُس کے طبعی انجام تک پہنچانے کےلیے آخری حد تک پرعزم تھا۔شریعت سے تمسک اور اجتماعی سپرٹ سے لبریز ہونے میں یہ نوجوان اپنے سے پہلے مجاہد کی نسبت کہیں پختہ اور پُرعزم تھا۔ اس کے نوجوان قائد ملا عمر مجاہد نے اس میں عزم و حوصلہ اور فدائیت و اطاعتِ نظم کی ایک نئی روح پھونک ڈالی تھی۔ وہ افغانستان جو ایک طرح سے کھو دیا گیا تھا، ’تحریکِ طالبان افغانستان‘ کے ہاتھوں ایک بار پھر اسلام کو مل گیا تھا!
مگر یہ سب ایک نئے دور کی شروعات تھیں۔ یہ کوئی علاقائی فنامنا regional phenomenon رہنے والی چیز نہ تھی۔ اِس ’تحریکِ طالبان افغانستان‘ کو قدرت نے گویا ’یونی پولر ورلڈ‘ کا بھرکس نکالنے کےلیے ظہور کروایا تھا۔ ہندوکش کے پہاڑ جن کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر اس سے پہلے دو سپر طاقتوں برطانیہ اور روس نے اپنا سر پھوڑا تھا، اب تیسری سپر طاقت امریکہ کا غرور خاک میں ملانے کےلیے بےتاب تھے۔ ’عالمی توازن‘ کو بحالی دینے اور یوں پورے انسانی جہان کا بھلا کرنے کی یہ سعادت اِس بار ’تحریکِ طالبان افغانستان‘ کے حصے میں آنے والی تھی۔
یہ تحریک اپنے کام سے کام رکھنے کی پالیسی پر گامزن تھی۔ نہ کسی کو چھیڑنا نہ برانگیختہ کرنا۔ افغانستان کو شریعتِ اسلام کا محکوم اور امن کا گہوارہ بنانا اس کی بنیادی ترجیح تھا؛ جس کا اِسے پورا حق تھا۔ اپنی اِس بنیادی ترجیح کے باربار اعادہ کے سوا، نہ کبھی اس نے امریکہ کے خلاف بڑھک لگائی تھی نہ بھارت کے خلاف اور نہ کسی اور عالمی طاقت کے خلاف۔ نظر شاید دُوردُور تک دیکھتی تھی لیکن زبان کو حکمت کی لگام تھی؛ سو لب پر وہی آتا جس کا وقت ہوتا! تواضع، انکساری، بردباری، دلیری، زندہ دلی، صبر، قناعت، جفاکشی، خودداری اور خودانحصاری اِس کی عملی پہچان تھی۔ اسلامی روایات کے ساتھ افغان روایات گندھ کر جو ایک چیز بنتی اس کا نام ’تحریکِ طالبان افغانستان‘ تھا۔ پورے عالم اسلام اور اس کے تمام ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ اِس کی طرف سے مسلسل بڑھا رہا تھا جسے ابھی تک صرف پاکستان، سعودی عرب اور امارات کے طرف سے ہی ایک مثبت جواب مل پایا تھا اور باقی شاید ابھی گو مگو کی کیفیت میں تھے۔ مسلم ملکوں کے ساتھ کسی قسم کا تصادم اور محاذآرائی کسی بھی نظریے یا کسی بھی فلسفے کے تحت اِس کے افکار میں سرے سے شامل نہ تھا۔ پورا عالم اسلام اِسے اپنا مشترکہ اثاثہ سمجھتا تو حق بجانب ہوتا۔ ہاں عالمی کفر اس کو شمشیرِ بےنیام کی طرح دیکھتا اور بظاہر کوئی وجہ نہ رکھنے کے باوجود، ایسا دیکھنے میں وہ بھی شاید حق بجانب ہی تھا!
ایک طرف مٹھی بھر مجاہدوں کی یہ جماعت جو اپنے ملک کے بکھیڑوں سے ابھی نہ نمٹ پائی تھی.. دوسری طرف عالمی کفر.. دونوں ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے مگر بغور دیکھ رہے تھے۔ وہی محمدقطبؒ کے الفاظ کہ’انبیاء کے پیروکار خواہ کتنے ہی تہی دست ہوں، مگر عالمی جاہلیت کے وجود میں انہیں دیکھتے ہی کچھ ایسی سنسنی دوڑتی ہے جو کوتوالی پر نظر پڑنے کے ساتھ ایک چور کے وجود میں۔ چور کی اِس وحشت اور سراسیمگی کی وجوہات خارج میں تلاش کرنا عبث ہے؛ اس کی وجوہات چور اور کوتوالی کے اِس دوطرفہ رشتے کے اپنے ہی اندر پڑی ہیں۔ یہ ’رشتہ‘ کبھی بدلنے والا نہیں؛ انبیاء کے پیروکاروں کو پنپتا چھوڑنا جاہلیت کے دستور کے خلاف ہے‘۔ اور بلاشبہ ایسا ہے۔ ’اسامہ بن لادن‘ کا بہانہ نہ بھی ہوتا، اسلام کے اِس مضبوط دُوررَس ٹھکانے کو تہس نہس کرنے کے اور لاکھ بہانے ہوتے۔ یہ سادہ حقیقت مُلاعمر مجاہدؒ کی نگاہ سے روپوش کیسے رہ سکتی تھی۔ لیقضی اللہ أمرًا کان مفعولاً۔ جارح قوتوں کے ساتھ دو دو ہاتھ ہونا گویا نوشتۂ دیوار تھا۔ یہ کچھ کر لیں، وہ اِنہیں اِن کے حال پر چھوڑنے والے نہیں سوائے یہ کہ اُن کی ملت کی پیروی ہو۔ یہاں؛ دشمن سے اپنے وجود کےلیے رحم کی بھیک مانگنے والا ’ملاعمرمجاہد‘ نہ ہو سکتا تھا! اس کا تو مردانہ وار مقابلہ ہی ہونا تھا!
امریکہ کے ساتھ کوئی تنازع خود اِس نے نہ کیا تھا۔ لیکن حالات پر نگاہ رکھنے والے پر واضح ہے، امریکہ کبھی اس کو چھوڑنے والا نہ تھا، سوائے یہ کہ امریکہ کو اس پوزیشن میں نہ رہنے دیا جائے کہ وہ جب چاہے کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے کسی مسلم ملک پر چڑھ دوڑے۔ امریکہ کو اِس پوزیشن سے نیچے لانے کی یہ نیکی شاید افغانستان میں اٹھنے والی اِسی تحریک کو انجام دینی تھی۔ ایک درندہ دنیا میں کھلا پھرتا ہو تو آپ کہیں دنیا میں اپنا اسلامی تجربہ نہیں کر سکتے۔درندے کو اتنا سا ہلکا کرنا ضروری ہے۔ اور شاید اتنا ضروری کہ اپنے اسلامی ریاست و سیاست کے پروگرام کو بھی اس ہدف کے انجام پانے تک کچھ نہ کچھ موخر کر لینا ضروری ہو۔ کیونکہ، جیساکہ ہم نے کہا، یہ درندہ جب تک یوں دندناتا ہے، اسلامی ریاست و سیاست کا کوئی پروگرام سرے سے محفوظ ہی نہیں ہے۔ بلکہ کوئی مسلم ملک اور اس کا کوئی سٹرٹیجک پروگرام محفوظ نہیں ہے۔ پس ایک معرکہ ہونا ٹھہر گیا تھا۔ دنیا کو ’یونی پولر ورلڈ‘ سے باہر لانا ضروری تھا، جہاں یہ اپنا توازن خود قائم کرے۔ جہان میں ایک مطلق العنان سپریم طاقت جو اپنے صلیبی ایجنڈا کے تحت یہاں کے ہر معاملے کو اپنے اشاروں پر چلانے اور اپنے کنٹرول میں رکھنے پر بضد ہو، اس کا اتنا سا زور توڑ دینا ضروری ہے، کہ آئندہ کسی مسلم ملک میں فوجیں اتارنے سے پہلے وہ ہزار بار سوچے کہ آیا وہ اس کی جانی ومالی و ’معاشی‘ قیمت دے سکتی ہے؟ پس اسلامی ریاست و سیاست کا کوئی پروگرام اِس حالیہ غیرمتوازن دنیا میں فی الحال ایک لانگ ٹرم پروگرام ہی ہو سکتا ہے۔ فوری کام جہاد کے سوا کچھ نہیں۔ اِس کے سوا آپ جو کریں، فی الحال غیرمحفوظ ہے۔ ملا عمر مجاہدؒ کی اسلامی تحریک پر یہ بات واضح تھی۔ چنانچہ اللہ کا نام لے کر ملتِ صلیب کے ساتھ اِس طویل المراحل جہاد کا آغاز کر دیا گیا۔ ’آزادی‘ کی جنگ کا یہ ایک باقاعدہ مرحلہ ہے، جس کے ثمرات آئندہ نسلیں ان شاءاللہ ضرور سمیٹیں گی۔ یہ دراصل اُمّ المعارک ہے۔ آپ کے بہت سے قومی و اجتماعی اہداف اِس مرحلہ کے سرے لگنے کے ساتھ ہی متعلقہ ہیں۔ اور کیا معلوم ’تحریکِ طالبان افغانستان‘ نے اور کتنے مسلم ملکوں کا بھلا کر دیا ہو۔
بلکہ کیا معلوم مُلا عمر کے اِس جہاد نے کتنی غیر مسلم مظلوم اقوام کا بھلا کر دیا ہو!
اِس مجاہد کو پوری دنیا کا محسن کہیں تو غلط نہ ہو۔
جہاں تک کارکردگی کی بات ہے.. تو پورے جہان نے دیکھا، مسلمانوں کا یہ عالمی جہاد دوسری سپر پاور (امریکہ) کے خلاف بھی کامیاب جا رہا ہے۔ یہ کوئی آسان مشن نہ تھا، یقیناً اِس میں ہمارے کچھ بڑےبڑے نقصان ہوئے، لیکن مجموعی کارکردگی ٹھیک ٹھاک حوصلہ افزا ہے۔ اِس دوران عالمی توازن اپنی جگہ سے ہل کر کہیں سے کہیں جا پہنچا۔ روس کی شکست بھی دراصل اسلحہ یا فوج کی کمی کے باعث نہ ہوئی تھی بلکہ جنگ اُس کی معیشت لے ڈوبی تھی۔ امریکی معیشت بھی ہچکولے کھانے لگی۔ دوسری معیشتیں اس کے مقابلے پر تیزی سے سر اٹھا رہی ہیں۔ افغانستان سے اُس کے نکلنے کے پیچھے بہت حد تک یہی معاشی حقیقتیں ہیں۔ عراق میں اب وہ اپنی فوجیں اتارنے پر تیار نہیں، بلکہ یہ کام وہ ایران سے لینے کی کوشش میں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں، ملتِ صلیب کے خلاف اٹھنے والی عالمِ اسلام کی جہادی تحریکیں اپنے اِس ابتدائی ہدف میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ عالم اسلام پر فوجی بوٹوں کے ساتھ چڑھ دوڑنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔ اِس کی قیمت انکل سام کے بس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ فرق محض ایک ڈیڑھ عشرے کی کارگزاری کا نتیجہ ہے۔ ’تحریکِ طالبان افغانستان‘ کے ہاتھوں شروع ہونے والے اِس مشن کو کئی صورتوں میں شاید ابھی جاری رہنا ہے۔
*****
اپنے جہادی عمل میں ملا عمر وسعت اور گنجائش کے منہج پر تھے۔ اِس معاملہ میں ان کا طریقہ شدت پسند گروہوں کی راہ سے ہٹ کر نظر آتا ہے۔ بلکہ اِس حوالہ سے وہ ہمیں عبداللہ عزامکے منہج کے قریب نظر آتے ہیں۔ یعنی جہاد کے حق میں دستیاب امکانات کو بھرپور طور پر لینا۔ مسلم ملکوں، ان کی حکومتوں اور ان کے اداروں سے، اپنے جہادی عمل میں تعاون دینے اور لینے کے معاملہ میں سلبی نہ ہونا۔ نیز یہاں کسی قسم کا محاذ کھولنے سے گریز کرنا۔ مسلم ملکوں کی قیادتوں کے ساتھ غایت درجہ صبر اور وسعتِ نظر اختیار کرنا؛ اور اِس معاملہ میں کسی ممکنہ بھلے وقت کا راستہ اپنے ہی ہاتھوں مسدود نہ کر لینا۔ تکفیر اور تصادم کے لہجوں سے از حد دور رہنا۔ یہ ایک کمال بُردباری اور دُوراندیشی کا متقاضی راستہ ہے، جس سے اللہ نے ملا عمر مجاہد کو بہرہ مند کر رکھا تھا۔ اسی حکمت اور ترجیحِ مصالح کی راہ پر چلتے ہوئے ابتداء میں ملا عمر اپنی تحریک کو افغان سرزمین پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس معاملہ میں ان کی اپروچ وہی تھی جو اِس سے پہلے (روس کے خلاف) افغان جہاد میں اختیار کر رکھی گئی تھی؛ اور جس پر شیخ عبداللہ عزامؒ یہاں کے جذباتی نوجوانوں کے اشکالات دور فرماتے رہے تھے۔ یعنی کافر و غاصب قوموں کے خلاف جہادی عمل میں مسلم ملکوں اور ان کے اداروں کے ساتھ تعاون کی ممکنہ راہیں مسترد نہ کرنا، اور جس قدر ممکن ہو اِس کے راستے کھلے رکھنا۔
ہم اپنی نجی مجالس میں یہ کہتے رہے ہیں، ملا عمر مجاہدؒ شروع دن سے اسی عبداللہ عزامؒ والی وسعت کی راہ پر تھے۔ بعد میں بھی، خواہ حالات جتنے ہی نامساعد ہوئے ہوں، ہمیں کوئی اشارہ ایسا نہیں مِلا کہ مُلا عمرؒ نے اپنا یہ منہج تبدیل کر لیا ہو، اگرچہ بعض لوگ اپنے کچھ محدود حلقوں میں ایسا کتنا ہی تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے ہوں، مگر ملا عمرؒ کے اپنے کسی بیان یا اقدام سے کبھی ایسا کوئی قرینہ نہیں ملا۔ بعد کے حالات سے تصویر جیسےجیسے واضح ہوئی، ہمارے اِس اندازے کو تقویت ہی ملی۔ جتنے بھی شواہد اب تک سامنے آئے، ان سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملا عمر اور ان کے رفقائے کار شدت پسندی کی راہ سے قطعی الگ تھلگ تھے اور عالم اسلام میں زیادہ سے زیادہ دوست پیدا کرنے کی پالیسی پر گام زن۔ عالمِ اسلام میں جگہ جگہ اپنے لیے دشمن کھڑے کرنا یا ان کےلیے ’کافر‘ اور ’مرتد‘ ایسے لفظ عام کرنا ملا عمرؒ اوران کی جماعت کا اسلوب نہ تھا۔ نہ بعدازاں یہ چیز کبھی ان کے منہج میں داخل ہوئی۔ یہاں تک کہ خود شدت پسند حلقے ہی، جو گزشتہ سالوں کے دوران ملا عمر اور اُن کی تحریکِ طالبان کو اپنا ہمنوا باور کراتے رہے ہیں، اب یہ ’انکشاف‘ کرنے لگے کہ ملا عمر، جلال الدین حقانی اور ان دونوں کے رفقائے کار تو مداہنت کی راہ پر پائے گئے ہیں!
ہماری نگاہ میں دورِحاضر کا ایک نہایت سلیم منہج ہے جس پر ہمارا یہ مجاہد پایا گیا۔
*****
سرزمین افغانستان میں اقامتِ شریعت کے علاوہ… معاصر جہاد میں ملا عمر مجاہدؒ کا صحیح مرتبہ اور اعزاز کیا ہے؟
تاریخ جب بھی ذکر کرے گی، یہ سہرا ہمارے اِس مجاہد کے ہی سر سجے گا۔ ایک مسلم امارت کے سربراہ کی حیثیت میں یہ تمغہ اِسی کا حق ہے:
پہلا افغان جہاد، جس میں روسی سپرپاور کو گرایا گیا، بےشک ایک عظیم جہاد تھا۔ بےشک اُس میں قربانیوں کی عظیم داستانیں رقم کی گئیں۔ لیکن اُس میں پورا مغربی بلاک اپنے اسلحہ اور سہولیات سمیت مجاہدین کے ساتھ کھڑا تھا۔ نیز عالم اسلام کے بہت سے ممالک اپنے بھاری بھرکم امکانات کے ساتھ اس کی پشت پر تھے۔ ایک بڑی سطح پر، یہ دو بلاکوں ہی کی جنگ تھی۔ پھر بھی مجاہدین کو ایسی ایسی فِدائی مہمات انجام دینا پڑیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ اس کا کچھ اندازہ کرنا ہو تو ایک نظر عبد اللہ عزامؒ کی خودنوشتیں دیکھ لینا کافی ہو گا۔ مگر… جہاد کا یہ مرحلہ جو امریکی سپرپاور اور اُس کے متحدہ مغربی بلاک NATO کے خلاف پچھلے ڈیڑھ عشرہ میں لڑا گیا، یہاں تو سب سہارے ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ مدمقابل اس قدر عظیم عسکری اتحاد اور اِدھر ایک مٹھی بھر جماعت جس کے ساتھ کوئی نہیں! اِس صورتحال پر تو لوگ ہنس ہنس کر پاگل ہو رہے تھے؛ اور ایسا تو بلاشبہ روس کے خلاف جہاد کے موقع پر بھی پیش نہ آیا تھا۔ یہ تو گویا ایک معجزہ تھا۔ ایک تہی دست مجاہد کا اللہ پر توکل کرنا یہاں عقول کو جس طرح مبہوت کرتا ہے، اس کی کہیں مثال نہیں۔ پوری ایک قوم کا جہاد ایک قائد نے کسی دنیوی سہارے کے بغیر لڑ کر دکھایا… اور دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔
اِس بلندی پر ملا عمر مجاہدؒ کے سوا آپ کسے پاتے ہیں؟
اللھم اجۡزِہٖ عن أمَّۃِ الإسلام خیرَ ما جزیت بہٖ عبادَکَ المجاھدین۔
*****
Any English translation of this?
ReplyDelete