بسم الله الرحمن الرحیم
(وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ) [العنكبوت:(69)
الحمد لله رب العالمین ، والعاقبة للمتقین ، والصلاة والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین ، قائد المجاهدین نبینا ومولانا محمد علیه افضل الصلوات والتسلیم وعلی آله وأصحابه ومن اهتدی بهدیه اجمعین وبعد.
مجموعی طورپر جہادی صف کی قیادت کچھ خصوصی صفات سے بہرور ہوتی ہے ۔ بسا اوقات انہیں یہ صلاحیتیں وہبی طریقے سے حاصل ہوجاتی ہیں اور کبھی اپنے دیگر جہادی ساتھیوں کی تربیت کے دوران یہ صلاحیتیں حاصل کرلیتے ہیں ۔
اللہ کے دین کے ساتھ اپنے انتہائی خلوص اور فداکاری کہ وجہ سے جہادی قائدین پر اللہ تعالی کی خصوصی نوازشات ، نصرت اور مہربانیاں ہوتی ہیں ۔ اس حوالے سے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
(وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ) [العنكبوت:(69)
امارت اسلامیہ افغانستان جو معاصر دور میں عالمی سطح پر کفر واستبداد کے خلاف جہاد اور مزاحمت کا ایک مستحکم مورچہ سمجھا جاتا ہے اس کے موسسین رہنما وں کو اللہ تعالی نے وہبی طریقے سے قیادت اور رہنمائی کے فوق العادت صلاحیتوں اور مہارتوں سے نوازا ہے ۔
خود امارت اسلامیہ افغانستان کے موسس ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ قائدانہ صلاحیتوں کا ایک زندہ مجموعہ تھے ۔ انہوں نے عالمی کفر کے خلاف جہاد کے میدان میں مسلمانوں کی قیادت اور رہنمائی کی صلاحیتیں عملی طورپراپنے ساتھیوں کو منتقل کیں جو اللہ تعالی کے نظام کی حاکمیت کے لیے ان کے ساتھ تھے ۔
امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ ایک عسکری قائد کے ساتھ اس جہادی مدرسے کے جہادی طلباء )مجاہدین( کے لیے ایک روحانی اور اخلاقی مربی بھی تھے ۔
ان کی قیادت میں بہت سی ایسی شخصیات نے تربیت پائی جن میں سے ہر ایک اس دور میں مسلمانوں کی قیادت اور عصرحاضر کے ان حساس ترین حالات میں رہنمائی کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔
فکری اور جہادی تحریکوں میں ویسے بھی شخصیات سے زیادہ بنیادی کردار مذہبی اساسات کا ہوتاہے ۔ یہاں سب کچھ جہادی اور فکری بنیادوں پر منظم ہوتا ہے ۔ قرآنی ارشادات ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے کارنامے اس تحریک کو بنیادی پالیسیاں فراہم کرتی ہیں ۔
اس طرح کی نظریاتی تحریکوں میں قائد اور قیادت کی بنیادی ذمہ داری اپنے افراد اور پیروکاروں کی نظریاتی اور اخلاقی تربیت اور انہیں فکری حوصلہ دینا ہوتا ہے ۔
امیرالمومنین ملا محمد عمرمجاہد رحمہ اللہ نے اسلامی تحریک کے آغاز اور اور پھر امارت اسلامیہ کی تاسیس کے وقت جہادی قیادت اور رہنمائی کے لیے قبل ازیں ایسے بابصیرت اور قائدانہ خصوصیات کے حامل لوگوں کی تربیت کی ہے جنہوں نے جہاد اور مزاحمت کے شدیدترین حالات میں بھی اس جہادی قافلہ کو منزل مقصود تک پہنچایا ۔
ایسی بہادر اور غیور شخصیات جو ہر طرح کے شدید حالات کا سامنا کرنے کی صورت میں نہ گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں اور نہ خطرناک زمانی اور مکانی حالات سے متاثر ہوتے ہیں ۔
ان بابصیرت شخصیات اور مدرسہ عمری کے ان سنجیدہ طلبہ میں سے امارت اسلامیہ کے موجودہ منتخب امیر ملا اختر محمد منصور حفظہ اللہ بھی ہیں جنہوں نے عملی طورپر قیادت کے معاملات عالیقدر امیرالمومنین رحمہ اللہ کی حیات ہی میں شروع کردیےتھے ۔ اور ان کی وفات کے بعد امارت اسلامیہ کے اہل حل والعقد ، معتبر شخصیات ، علماء کرام ، جہادی رہنماوں اور دیگر قومی شخصیات کی جانب سے انہیں نئے امیر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا ۔باوجود اس کے کہ امارت اسلامیہ کے نئے امیر جہادی اور تحریکی حلقوں میں جانی پہچانی حیثیت رکھتے ہیں مگرچونکہ امارت اسلامیہ کے تمام مجاہدین اور اسلامی دنیا کے تمام محبان دین کی خواہش اور شوق ہے کہ نئے امیر کی ذات کا مکمل تعارف حاصل کریں اور انہیں پہچان سکیں ۔ اس لیے ان کا تفصیلی تعارف پیش کرنے کے لیے ذیل کی سطور رقم کی جارہی ہیں ۔
پیدائش :
محترم ملا اختر محمد منصور حفظہ اللہ الحاج محمد جان کے صاحبزادے، 1968 میں ان کی پیدائش قندہار ضلع میوند کے بند تیمور گاوں میں ہوئی ۔
چونکہ ان کا خاندان اپنے علاقے کی سطح پر ایک دیندار اور علم دوست گھرانہ تھا اور ان کے والد ایک علم دوست شخص تھے اس لیے منصور صاحب کی صحیح تربیت کے لیے ان کا پہلا انتخاب دینی تعلیم کا حصول تھا۔
تعلیم:
جناب منصور صاحب کو سات سال کی عمر میں ان کے والد نے اپنے علاقے کے ایک دینی ادارے میں داخل کروایا ۔ چونکہ بچپن ہی سے ان میں ذکاوت اور سمجھداری کے علامات ظاہر تھے اس لیے اپنے والد کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ کی جانب سے بھی ان کی خصوصی تربیت کا اہتمام ہونے لگا۔ انہوں نے اپنی بے پایاں علمی قابلیت کے ذریعے کم وقت میں اپنی ابتدائی دینی اور عصری تعلیم کامیابی سے حاصل کی ۔ مزید اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بعض مشہور مدارس کا رخ کیا ۔ وہاں بھی اپنی فطری ذکاوت اور نیک اخلاق کے باعث اپنے ہم مکتبوں میں نمایاں قابلیت اور اخلاق کے مالک رہے ۔ وہیں عالیہ سطح کے علوم حاصل کیے ۔
منصور صاحب ابھی علوم کے ابتدائی مراحل میں تھے کہ افغانستان کا سیاسی اقتدار کمیونسٹوں کے ہاتھوں میں چلا گیا اور افغانستان کے مجاہد عوام نے ان کے خلاف اسلامی تحریک کا آغاز کردیا ۔
جہاد اور سیاسی جنگ :
1978ء میں افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کے بعد افغانستان کے مجاہد عوام نے اس کے خلاف اسلامی تحریک اور جہاد کا آغاز کردیا ۔
سوویت جارحیت کے درمیانے ادوار میں جب ملا اختر محمد منصور صاحب جوان ہوئے اس وقت اپنی دینی تعلیم کی تکمیل کے لیے پھر سے تعلیمی سلسلے سے جڑنا چاہتے تھے، جارح قوت کے خلاف مسلح جہاد کے لیے اپنے جہادی جذبے کی وجہ سے اپنی دینی تعلیم ادھوری چھوڑ دی ۔ مگر علم کا بے پاں شوق ہونے کی وجہ سے جب بھی جہاد سے لوٹتے اپنے خاص اساتذہ سے اپنی بقیہ ماندہ پڑھائی کی تکمیل کرنے لگتے ۔ اسی طرح مضبوط عزم کے ساتھ پڑھائی جاری رکھی اور موقوف علیہ تک پہنچادی ۔ بعدازاں انہوں نے مستقلا میدان جہاد کا انتخاب کیا اور محاذوں پر رہنے لگے ۔
محترم منصور صاحب نے اس وقت تک اپنی زندگی کے دو ہی عشرے پورے کیے تھے ۔ انہوں نے ایک بہادر اور غیور مجاہد کی حیثیت سے شعوری طورپر اپنے دین اور ملک کے دفاع کی خاطر جارحیت پسندوں اور داخلی کمیونسٹوں کے خلاف مسلح جہاد کا آغاز کردیا ۔
انہوں نے 1985 میں جہادی کارروائی کے لیے قندہار کے مشہور جہادی کمانڈر قاری عزیز اللہ شہید کے محاذ سے اپنی جہادی زندگی کا آغاز کیا ۔ ضلع پنجوائی کے علاقے پاشمول میں افغانستان کی سطح پرمشہور جہادی شخصیت الحاج ملا محمد حسن اخوند کی سرپرستی میں سوویت جارحیت پسندوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کے خلاف جہادی کارروائیاں کیں ۔ قاری عزیز اللہ صاحب شہید رحمہ اللہ کا محاذ مولوی محمدنبی محمدی مرحوم کی تنظیم حرکت انقلاب اسلامی سے ملحق تھا ۔ قاری عزیزاللہ کی شہادت کے بعد کمانڈر حاجی محمد اخند کی قیادت میں جہادی شخصیت مولوی محمد یونس خالص کی تنظیم اسلامی حزب میں انہیں ذمہ داری دی گئی ۔
منصور صاحب نے قندہار میں سوویت یونین جارحیت پسندوں اور ان کے داخلی حامیوں کے خلاف بہت سی فوجی کارروائیوں میں فعال حصہ لیا ۔ 1987 میں قندہارضلع پنجوائی کے علاقے سنزری میں روسیوں کے ایک سٹریٹجک مرکز پر براہ راست حملے کے دوران ایسے زخمی ہوئے کہ ان کے جسم پر تیرہ زخم آئے مگر اللہ تعالی نے انہیں شفا دے دی ۔ دوسری بار 1997ء میں مئی کے مہینے میں امارت اسلامیہ کی حکومت میں مزارشریف کے ہوائی اڈے میں زخمی ہوگئے اور اسی زخمی حالت میں مخالفین کے ہاتھوں اسیر بھی ہوگئے ۔
تحریک اسلامی طالبان میں بنیادی کردار:
1992ء میں افغانستان میں کمیونسٹ نظام کے خاتمے اور داخلی جنگوں کے آغاز کے بعد جناب منصور صاحب اور ان کے محاذ کے دیگر مخلص مجاہدین نے اسلحہ رکھ دیا اور اقتدار کی خاطر شروع ہونے والی جنگ میں کسی کا ساتھ نہیں دیا ۔
منصور صاحب جو اس وقت ایک نامور مجاہد بن چکے تھے اور مجاہدین کے درمیان اچھی شہرت رکھتے تھے انہوں نے ملامحمد رباني ، شهید حاجي ملامحمد،او شهید ملا بورجان رحمھم اللہ کی طرح جنگی مصروفیات ترک کردیں اور کچھ تعلیمی اور تربیتی امور میں مصروف ہوگئے ۔
1994 میں امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی جانب سے طالبان کے نام سے اسلامی تحریک کا آغاز ہوا تو انہوں نے اسے آگے بڑھانے میں محوری کردار ادا کیا ۔
ان کی انتظامی اور جہادی صلاحیتوں کے باعث طالبان تحریک کے سربراہ کی جانب سے انہیں اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں جن میں سے کچھ درجہ ذیل ہیں :
1۔ جنوب مغربی زون میں اسلامی تحریک طالبان کی کامیابی اور قندہار پر قبضہ کے بعد امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی جانب سے ان پر بے پناہ اعتماد کے باعث انہیں قندہارائیرپورٹ کا مرکزی سربراہ متعین کیا گیا ۔
2۔ طالبان کے ہاتھوں قندہار کی فتح کے بعد قندہار فضائی افواج اور فضائی دفاع کی ذمہ داری انہیں دی گئی ۔
3۔ 1996 میں دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد انہیں فضائیہ اور سیاحت کا وزیر بنایا گیا ۔
4۔ وزارت کے دوران ہی امیرالمومنین مرحوم کی خصوصی ہدایات اور حکم پر وزارت دفاع سے منسلک فضائی دفاع کی مرکزی کمانڈ بھی انہیں دے دی گئی ۔ افغانستان فضائی سفر اور سیاحت کے شعبے میں انہوں نے بہت سی تبدیلیاں اور اصلاحات کیں جن میں کچھ باتوں کا تذکرہ مختصر طورپر یہاں کریں گے ۔
کابل کی فتح کے وقت اس شہر میں خانہ جنگی کے باعث فضائیہ کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا ۔ فضائیہ کے تمام املاک تباہ ہوچکے تھے ۔ محترم منصور صاحب نے اپنی تعمیرنو کی پالیسی کے تحت اس شعبے سے منسلک تمام تباہ شدہ املاک ، ائیرپورٹوں اور طیاروں کو پھر سے ٹھیک کروایا
یہ وہ وقت تھاجب امارت اسلامیہ شدید اقتصادی مشکلات اور عالمی پابندیوں کا شکار تھی ۔ مگر منصور صاحب نے انہیں نامناسب اقتصادی حالات میں پہلے کابل کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ اور اس سے ملحق تمام تنصیبات کی ازسرنو تعمیر کی اور پھر آریانا ائیر لائن اندرونی وبیرونی سفروں کے لیے عالمی معیار کے مطابق درست کردی ۔
اس کے بعد قندہار ، ننگرہار ، مزارشریف اور قندوز کے فضائی اڈے ہر طرح کی عوامی اور فوجی پروازوں کے لیے تیار کرکے مختلف جدید وسائل سے مزین کردیے ۔
امارت اسلامیہ کی عسکری اور عوامی شعبوں میں مختلف ترقیاتی اور فلاحی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ افغانستان کا بڑا قومی سرمایہ یعنی فضائی قوت اور اس سے متعلق طیارے اور تباہ شدہ فضائی اڈے پھر سے تعمیر کیے ۔
طیاروں اور ہوائی میدانوں کی تعمیر نو کے علاوہ اندرون افغانستان میں چوبیس گھنٹے اندرونی پروازوں کی سہولت مہیا کرنے کے علاوہ سالوں بعد پہلی بار ہزاروں افغان حاجیوں کے لیے آریانہ ائیر لائن کے ذریعے سفر کی سہولتیں مہیا کیں ۔
افغانستان جو کبھی عالمی سطح پر انتہائی ترقی یافتہ فضائی دفاعی قوت رکھتا تھا روسی جارحیت اور تنظیمی جھگڑوں کی وجہ سے تقریبا سارا کہ سارا تباہ ہوکر ناکارہ ہوچکا تھا ۔ یہاں تک کہ کچھ طیارے پرزوں میں بٹ کر سکریپ میں بیچ دیے گئےتھے، مگر منصور صاحب نے دن رات کوششیں کرکے ان ناکارہ طیاروں کو پھر سے کار آمد بنایا ۔
محترم ملا اختر محمد منصور حفظہ اللہ نے امارت اسلامیہ کے دور حکومت کے پورے عرصے میں افغانستان کی فضائی پروازوں کو احیاء اور ترقی دینے کےلیے بہت کوششیں کیں ۔
یہاں مشت نمونہ از خروارے کے طورپر اس کا مختصر تذکرہ کریں گے ۔
جناب منصور صاحب نے فضائیہ کا معیار بہتر بنانے اور دیگر ممالک کے ٹرانزیٹ پروازوں کو جو افغانستان کے حدود سے گذرتے تھے کابل ، قندہار ، ننگرہار ، مزار اور ہرات کے ہوائی اڈوں میں ویسٹ دستگاہ کی سہولتیں مہیاکیں ۔ جو اب بھی دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں ۔ اس دور میں ان ہوائی اڈوں سے ٹیکس کی مد میں ملینوں ڈالر آمدنی ہوتی تھی جو اب بھی جاری ہے ۔ اس دور میں سیول افغان فضائیہ اور ائیرفورس کے 44 مختلف ٹرانسپورٹ اور جنگی طیارے جو خانہ جنگیوں میں تباہ ہوکر ناکارہ ہوگئے تھے ۔ انہوں نے ان تباہ شدہ طیاروں کی از سرنو درستگی اور انہیں پرواز کے قابل بنایا جس کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے :
وہ 44 مختلف النوع طیارے جو منصور صاحب کی وزارت کے دور میں از سرنو بنائے گئے وہ حسب ذیل ہیں ۔
ٹرانسپورٹ طیارے :
تین عدد این 12،چار عدد این 32، دو عدد این 26
جنگی طیارے :
آٹھ عدد جیٹ میگ 21، تین عدد جیٹ سوM420، پانچ عدد جیٹ سو 22
ہیلی کاپٹر:
چھ عدد می8، آٹھ عدد می 35، پانچ عدد ایل 39
اس کے علاوہ عوامی ٹرانسپورٹ کے لیے ایک روسی ساختہ ماڈل 41 اور ایک این24 اور افغان آریانہ ائیرلائن کمپنی کا ایک امریکی بوئنگ طیارہ بھی اس دور میں بیرون ملک میں ٹھیک کرواکر قابل استعمال بنایا گیا ۔
اسی طرح 5 روسی ساختہ ٹرانسپورٹ طیارے آزاد بازار میں خریدے گئے ۔ ان تمام ریپئر شدہ یا خریدے گئے طیاروں کے علاوہ افغانستان میں درجنوں کی تعداد میں صحیح سالم جنگی ، ٹرانسپورٹ طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی تھے جو ایک مکمل فضائی قوت تشکیل دے رہے تھے ۔ اس کی کارکردگی کا بہترین مظاہرہ قندوز اور دیگر دورافتادہ علاقوں میں مجاہدین کے محاصرے اور دورافتادہ محاذوں اور خطوں کو مسلسل فضائی کمک پہنچانے کی صورت میں دیکھنے میں آیا ۔اس کے علاوہ ملک کے اندر اور بیرون ملک منظم طریقے سے مسافروں کی منتقلی کا بہترین انتظام بھی تھا۔ مگر امریکی جارحیت اور ہوائی اڈوں کو بمباری کا نشانہ بنانے کی وجہ سے یہ قومی ملکیت مکمل طورپر تباہ ہوگئی ۔
ملا اختر محمد منصور صاحب حفظہ اللہ امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں جنرل مالک کی غداری کی وجہ سے شمال میں 6 ماہ تک قید بھی رہے ۔ مگر اللہ تعالی کے فضل سے اس وقت واپس رہا ہوئے جب جنرل مالک جنرل دوستم کے حملے سے خوف زدہ ہوکر فاریاب سے بھاگ گیا ۔ اس طرح وہاں کی جیلوں سے قیدیوں کو نکلنے کا راستہ ملا ۔
امریکی جارحیت کے خلاف مسلح مزاحمت:
7اکتوبر 2001 کو افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد منصور صاحب نے ان کے خلاف مسلح جہاد بھی شروع کردیا ۔ محترم منصور صاحب کے لیے ان کی جہادی زندگی میں یہ مرحلہ انتہائی شدید آزمائشوں اور چیلنجوں سے بھرا تھا۔
انہیں امیرالمومنین رحمہ اللہ کی جانب سے امارت اسلامیہ کی رہبری شوری کی رکنیت کے علاوہ صوبہ قندہار کی جہادی ذمہ داری بھی دی گئی ۔
اس وقت افغانستان کے دیگر صوبوں کی طرح قندہار کو امریکا کے خلاف جہاد کے لیے ایک مضبوط کمانڈر کی ضرورت تھی ۔ کیوں کہ مجاہدین کے خلاف جنوب مغربی خطے کے تمام جنگی منصوبے اسی صوبے سے طے کیے جاتے تھے ۔
یہی وجہ تھی کہ ہلمند کے بعد پورے زون کی سطح پر قندہار میں سب سے زیادہ امریکی ، کینیڈین اور دیگر فوجی تعینات تھے ۔ بگرام کے بعد سب سے بڑا مرکزی اڈہ انہوں نے قندہار ائیرپورٹ میں قائم کیا ۔
منصور صاحب نے اپنی جہادی بصیرت سے قندہار میں موجود جارحیت پسندوں کے خلاف ایسے منصوبے تشکیل دیے جن کی روک تھام میں اپنے دور کے معروف ترین فوجی جرنیل اور عسکری ماہرین ناکام رہے ۔
انہوں نے اپنی جہادی مہارتوں اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتےہوئے نئے تیکنیک آزمائے ۔ پڑوس کے صوبوں کے جہادی ذمہ داران کے ساتھ مشاورت کے بعد قندہار سے نکل کر انہوں نے پورے جنوب مغربی حصے کی سطح پر پلان مرتب کرنے شروع کردیے ۔ قندہار کے علاوہ پڑوس کے صوبوں اروزگان ، زابل اور ہلمند میں صلیبی جارحیت پسندوں پر ہلاکت خیز حملے کیے ۔
سال 2003 اور 2008 میں قندہار کا مرکزی جیل دو مرتبہ خلاف توڑ دیا گیا اور دونوں مرتبہ 15 ، 15 سو کے قریب قیدی مجاہدین جیل سے رہائی پاگئے ۔ یہ دونوں واقعات منصور صاحب کے دور میں ہوئے ۔
بطور نائب امارت اسلامیہ :
2007 میں امارت اسلامیہ کے سابق نائب امیر ملا عبیداللہ اخوندگرفتار ہوگئے تو عالیقدر امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد نے اختر محمد منصور حفظہ اللہ کو امارت اسلامیہ کے دوسرے معاون ملا برادر اخوند کے ساتھ امارت اسلامیہ کا دوسرا نائب مقرر کیا اور یہ ہدایت بھی کی کہ قندہار بہت اہم ہے اس صوبے کے گورنر بھی رہنا اور دونوں ذمہ داریاں نبھاتے رہنا ۔
2010 میں اس وقت جب امارت اسلامیہ کے ایک سیکرٹری الحاج ملاعبید اللہ اخوند کو پاکستان کی جیل میں شہید کردیا گیا ایک اوردوسرے سیکرٹری ملا عبدالغنی برادر کو امریکی اور پاکستانی فوجیوں کی مشترکہ کارروائی میں پاکستان کے شہرکراچی میں گرفتار کرلیا گیا ۔ توامیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد نے محترم منصورصاحب کو نائب و سیکرٹری اور ا مارت اسلامیہ کے تمام امور میں مرکزی مسئول کے طور پر انہیں منتخب کیا۔
یہ وہ وقت تھا جب اوباما کی جانب سے افغانستان میں مزید 30ہزار فوجیوں کا اضافہ کیا گیا اور افغانستان میں جہادی مزاحمت کو شدید مشکلات پیش آنے لگیں ۔
اسی لیے جارحیت پسندوں کی ایک لاکھ سے زائد فوج جدید ترین وسائل سے لیس 3لاکھ 35ہزار داخلی فوجیوں کی آڑ لے کر مجاہدین کے خلاف ملک کے کونے کونے میں جنگ میں مصروف تھی ۔ ایک جانب انتہائی حساس سیکیورٹی حالات کے باعث اس مزاحمتی تحریک کی قیادت کے لیے امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کا منظر عام پر آنا مشکل تھا تو دوسری جانب جہادی محاذ پر عسکری اور انتظامی قیادت کی خلا تھی جس کی وجہ سے جنگ میں دشمن کا پلڑا بھاری ہونے لگا تھا۔
مجاہدین پر فوجی دباو کے ساتھ ساتھ سیاسی اور پروپیگنڈا پریشر بھی بڑھ رہا تھا۔ محاذوں پربہت سے مجاہدین شہید ہوچکے تھے اور بہت سے رہنما گرفتار ہوچکے تھے ۔
اس طرح کے حساس ترین حالات میں امیرالمومنین رحمہ اللہ کی جانب سے صلیبی جارحیت پسندوں کے خلاف مجاہدین کو سنبھالادینےکی ذمہ داری محترم منصور صاحب کو دی گئی۔ یہاں تک کہ ان کا کوئی معاون یا نائب تک ان کے لیے مقرر نہیں کیا گیا ۔ محترم منصور صاحب نے عملا اللہ تعالی کی نصرت اور رہبری شوری کے تعاون سے جنگ کے اس شدید ترین وقت میں مجاہدین کی ایسی قیادت کی کہ انہیں کسی طرح کی عملی قیادت کی کمی کا احساس نہ ہوا۔
یہی وجہ تھی کہ 2010 کا سال دشمن کے اپنے اعتراف کے مطابق ان کے لیے سب سے خونی سال رہاجبکہ مجاہدین نے تمام ادوار میں سب سے زیادہ کاری حملے دشمن پر اسی سال کیے ۔ جس میں دشمن کے اعتراف کے مطابق 770 فوجی ہلاک ہوگئے ۔
اسی طرح مجاہدین نے منصور صاحب کی قیادت میں بہت سے علاقے فتح کیے اور وہاں منظم اسلامی حکومت قائم کی ۔
امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی وفات کےبعد:
23 اپریل 2013 کو جب امیرالمومنین رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو امارت اسلامیہ کی رہبری شوری کے کئی ارکان ، جید علماء کرام ، گذشتہ چودہ سالوں میں ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے خصوصی قاصد اور ان کے دائمی ساتھی جو ان کی وفات تک ان کے ساتھ رہے سب نے منصور صاحب کی ہاتھ پر بیعت کردی اور انہیں امارت اسلامیہ کے امیر کی حیثیت سے متعین کردیا ۔
2013 صلیبی جارحیت پسندوں اور ان کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے درمیان مقابلے اور زور آزمائی کا آخری سال تھا۔ اس لیےامارت اسلامیہ کی رہبری شوری ، اہم ترین قیادت اور چند شیوخ اور اکابر علماء نے یہ فیصلہ کیا کہ اب صلیبی جارحیت کے خلاف جنگ کے آخری مراحل ہیں اور 2014 میں مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے ۔ دشمن نے خود اپنے فوجوں کی پسپائی کے لیے 2014 کے سال کا تعین کیا ہے۔ اور یہ سال ابھی آنے والا ہے اس لیے جہادی مصلحت اور علماء کی حمایت کے مطابق یہ ٹھیک ہوگا کہ مرحوم امیرالمومنین کی وفات کی خبر ان معدودے چند افراد تک محدود رہے ۔
یہی وجہ تھی کہ یہ بنیادی راز بہت معجزانہ طریقے سے مخصوص جہادی مصالح کی بنیاد پر 30جولائی 2015 تک محفوظ رکھا گیا۔
امارت اسلامیہ کے منتخب امیر کی حیثیت سے :
14شوال المکرم 1436ھ بمطابق 30جولائی 2015 کو جب امیرالمومنین رحمہ اللہ کی وفات کاباقاعدہ اعلان کیا گیا منصور صاحب نے مزید اطمینان کی خاطر رہبری شوری کےارکان اور علماء کرام کو اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دیدیا ۔ اور ان سے کہا کہ تم لوگ جس شخص کو منتخب کروگے میں اسی پر راضی اور متفق ہوں ۔
بعد ازاں امارت اسلامیہ کی رہبری شوری کے ارکان ، مشائخ اور مشہور علماء کرام کے ایک اجتماع نے جسے اہل الحل والعقد کا اعتبار حاصل تھا ، اجتماع میں منصور صاحب کی عدم موجودگی میں طویل بحث وتمحیص کی،مختلف مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مشاورت کی اور اس کے بعد امارت اسلامیہ کے نئے امیر کی حیثیت سے ان کا انتخاب کیا ۔
امارت اسلامیہ کے امیر کی حیثیت سے محترم ملا اختر محمد منصور صاحب حفظہ اللہ کے انتخاب کے بعد رہبری شوری کے ارکان ، امارت اسلامیہ کے تمام کمیشن کے سربراہان ، عدالتوں کے مرکزی ذمہ داران ، عسکری کمانڈروں اور افغانستان کے 34 صوبوں کے صوبائی رہنماوں ، عسکری کمیشن کے ذمہ داران ، ملک کی علمی ، قومی ، جہادی ، سیاسی اور ثقافتی شخصیات اور امارت اسلامیہ کے تمام مسلح مجاہدین نے بیک آواز نئے امیر سے بیعت کا اعلان کردیا ۔ ان تمام عسکری اور عوامی حلقوں اور ملک کی بڑی شخصیات نے اپنی بیعتیں صوتی پیغامات اور کتابت کی صورت میں ، امارت اسلامیہ افغانستان کے شعبہ نشریات کو بھیج دیں ۔
نئے امیر کی حیثیت سے تقررشریعت کی نگاہ میں :
علماء کرام اور سیاسی ماہرین نے اسلام میں نئے امیر کےلیے سب سے بہتر طریقہ علماء اور شوری اہل حل والعقد کی جانب سے انتخاب کو قرار دیا ہے ۔ اہل حل والعقد کا اطلاق اس گروپ پر ہوتا ہے جو علم ، تجربے اور سمجھداری رکھنے والے افراد پر مشتمل ہواور کم از کم ایک شوری کا اطلاق اس پر ہوتا ہو ۔
خلفاء راشدین کے انتخاب کے مختلف طریقوں سے جو عمومی طریقہ مستنبط کیا گیا ہے وہ یہی شوری کی جانب سے امیر کے انتخاب کے تین مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ ترشیح ، دوسرا انتخاب اور تیسرا بیعت کا ہے ۔
ترشیح یا قیادت کے لیے منتخب ہونا خود اس شخص کی جانب سے نہیں ہوتا جو زعیم مقرر ہورہا ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے إنا والله لا نولي هذا العمل أحدا سألة , أو أحدا حرص عليه
)متفق عليه ) (اخرجه البخارى (7149 ) ومسلم ( 1733 )
ترجمہ :واللہ ہم اس شخص کو اس قیادت کے لیے نہیں چنیں گے جو خود اسے چاہے یا اس کا حرص کرے ۔
اس لیے ترشیح دوسروں کی جانب سے ہوتی ہے یا ایک آدمی کی جانب سے جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑا اور بیعت کے لیے انہیں آگے کردیا اور پھر صحابہ کرام نے امام کے طورپر ان کا انتخاب کیا ۔ یا یہ انتخاب بہت سے لوگوں کا ہوگا ۔ جس طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت سے قبل کئی صحابہ کانام لیا خلافت کے لیے ، ان کے درمیان سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ خلیفہ بنے ۔ ملا اختر محمد منصور صاحب نے کبھی بھی خود کوامارت کے لیے پیش نہیں کیا ۔ پہلے اجلاس میں بھی ان کا نام امیر کے لیے منتخب ہوگیا تھا دوسرے اجتماع میں انہوں پھر سے صراحتا شوری سے کہا کہ میں قیادت کا طالب نہیں ہوں بلکہ ایک خادم کی حیثیت سے خدمت کرنا چاہتا ہوں ۔ مگر شوری نے صرف انہیں ہی واحد اہل فرد کے طورپر منتخب کیا ۔ طویل بحث اور غور کے بعد اسی شوری کی جانب سے جو علماء کرام ، شیوخ اور امارت اسلامیہ کے رہبری شوری کے ارکان پر مشتمل تھا جو سب کے سب علمی اور جہادی تجربات رکھنے والے لوگ ہیں ان سب کی جانب سے ان کا زعیم کی حثیت سے انتخاب کیا گیا اور شوری کے تمام ارکان نے ان سے بیعت کی ۔ بعد ازاں دیگر ذمہ داران ، عام مجاہدین اور مسلمانوں نے ان سے بیعت کا سلسلہ شروع کردیا ۔
اس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ ان کا انتخاب مکمل طورپر شرعی طریقے سے کیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول وعرض میں لاکھوں افراد کے علاوہ سینکڑوں قرآن وحدیث کے مشائخ نے ان کی زعامت قبول کی ۔ اسے شرعی قرار دیا اور ان سے بیعت کی ۔
قائدانہ شخصیت:
امارت اسلامیہ افغانستان کے نئے زعیم امیرالمومنین ملا اختر محمد منصور امارت اسلامیہ کے تاسیسی ارکان میں سے انتہائی مدبر ، موثر اور مضبوط قوت رکھنے والے فرد سمجھے جاتے ہیں ۔
انہیں وہبی طریقے سے قیادت اور رہنمائی کی خصوصی صفات اور خصوصیات سے نوازا گیا ہے ۔ تقوی ، اخلاص ، جہادی بصیرت ، سیاسی درایت اور کاموں کو عملی طورپر نظم وضبط دینا ان کے کام کی خصوصیات ہیں ۔
محترم ملا اختر محمد منصور صاحب امارت اسلامیہ کے تمام جہادی فعالیتوں کی تنفیذ میں اپنے جہادی رہنما ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔ جہادی اہداف کا حصول ، خارجی جارحیت پسندوں سے ملک کی آزادی ، ملک میں شرعی نظام کی مضبوطی ان کے جہاد کے بنیادی مقاصد ہیں ۔ وامرھم شوری بینھم پر عمل کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے مثبت مشورے غور سے سنتے ہیں ۔ کام اہل کار لوگوں کو سونپتے ہیں ۔ اور ذمہ داری دینے کے بعد ان پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں ۔ ذمہ دار افراد کو ہمیشہ عوام پررحم اور ان سے ہمدردی کی تلقین کرتے ہیں ۔
اس بات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کہ امارت اسلامیہ تمام افغانوں کا مشترکہ گھر ہے اس لیے سب کو اسی طرح یہاں رہنا ہوگا۔
فکری ومذہبی خیالات :
محترم ملا اختر محمد منصور صاحب مذہبی لحاظ سے اہل سنت والجماعت کے پیروکار اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مقلد ہیں ۔
حالات اور سیاسی پیچیدگیوں کی نزاکت سے بخوبی واقف ہیں ۔
ان سے ملنے کے بعد ہی ان کی سنجیدگی ، وقار اور متانت کا صحیح ادراک ہوسکتا ہے ۔ سادگی اور بے تکلفی ان کی زندگی کا خاص حصہ ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی سیرت اور مطالعے سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں ۔ مجاہدین سے مل کر ان سے دشمن سے آمنے سامنے کی جنگ کے متعلق حالات پوچھتے ہیں ۔
اپنی تمام تر جہادی اور انتظامی مصروفیات سنبھالنے کے ساتھ ساتھ میڈیا پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ جہادی لکھارریوں اور امارت اسلامیہ کے فرہنگی اور نشریاتی کارکنوں کو ان کی نشریات اور تحریروں کے حوالے سے خصوصی مشاورت اور احکام دیتے ہیں ۔
روزانہ کی مصروفیات اور زندگی کی چند خاص خصوصیات:
محترم منصور صاحب اپنی روز مرہ زندگی کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے کرتے ہیں ۔ جہادی محاذوں اور عسکری ذمہ داران سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں ۔ دشمن پر ہونے والے حملے کا پلان خود اپنی نظر سے گذارتے ہیں ۔ جہادی حکام کو عوام کے جان ومال کے تحفظ کی تلقین اور حکم کرتے ہیں ۔ وہ ایک فوجی کمانڈر کی طرح اپنے جہادی ساتھیوں ، محاذ کے مجاہدین سے احترام اور ہمدردی کا سلوک کرتے ہیں ۔ مجلس میں علماء ، اساتذہ اور بڑوں کی بات چیت کا خاص احترام رکھتے ہیں ۔ سیاسی امور میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں اور اس حوالے سے اہل رائے ساتھیوں سے رائے ضرور لیتے ہیں ۔
رائفل سے نشانہ بازی انہیں پسند ہے ۔ جہادی مشق کی پابندی کو سب سے مناسب ورزش قرار دیتے ہیں ۔
خود بہت کم بولتے ہیں دوسروں کی زیادہ سنتے ہیں ۔ صاف اور کھلے کپڑے پہنتے ہیں ۔ خوراک ، پوشاک اور زندگی کی دیگر ضروریات میں اسراف سے نفرت کرتے ہیں ۔ ان کی زندگی کا سب سے بنیادی مشغلہ جہادی امور کی تنظیم اور ان کی مسلسل نگرانی ہے ۔ اسی تنظیم سازی اور نگرانی میں دن گذارتے ہیں ۔
(وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ) [العنكبوت:(69)
الحمد لله رب العالمین ، والعاقبة للمتقین ، والصلاة والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین ، قائد المجاهدین نبینا ومولانا محمد علیه افضل الصلوات والتسلیم وعلی آله وأصحابه ومن اهتدی بهدیه اجمعین وبعد.
مجموعی طورپر جہادی صف کی قیادت کچھ خصوصی صفات سے بہرور ہوتی ہے ۔ بسا اوقات انہیں یہ صلاحیتیں وہبی طریقے سے حاصل ہوجاتی ہیں اور کبھی اپنے دیگر جہادی ساتھیوں کی تربیت کے دوران یہ صلاحیتیں حاصل کرلیتے ہیں ۔
اللہ کے دین کے ساتھ اپنے انتہائی خلوص اور فداکاری کہ وجہ سے جہادی قائدین پر اللہ تعالی کی خصوصی نوازشات ، نصرت اور مہربانیاں ہوتی ہیں ۔ اس حوالے سے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
(وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ) [العنكبوت:(69)
امارت اسلامیہ افغانستان جو معاصر دور میں عالمی سطح پر کفر واستبداد کے خلاف جہاد اور مزاحمت کا ایک مستحکم مورچہ سمجھا جاتا ہے اس کے موسسین رہنما وں کو اللہ تعالی نے وہبی طریقے سے قیادت اور رہنمائی کے فوق العادت صلاحیتوں اور مہارتوں سے نوازا ہے ۔
خود امارت اسلامیہ افغانستان کے موسس ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ قائدانہ صلاحیتوں کا ایک زندہ مجموعہ تھے ۔ انہوں نے عالمی کفر کے خلاف جہاد کے میدان میں مسلمانوں کی قیادت اور رہنمائی کی صلاحیتیں عملی طورپراپنے ساتھیوں کو منتقل کیں جو اللہ تعالی کے نظام کی حاکمیت کے لیے ان کے ساتھ تھے ۔
امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ ایک عسکری قائد کے ساتھ اس جہادی مدرسے کے جہادی طلباء )مجاہدین( کے لیے ایک روحانی اور اخلاقی مربی بھی تھے ۔
ان کی قیادت میں بہت سی ایسی شخصیات نے تربیت پائی جن میں سے ہر ایک اس دور میں مسلمانوں کی قیادت اور عصرحاضر کے ان حساس ترین حالات میں رہنمائی کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔
فکری اور جہادی تحریکوں میں ویسے بھی شخصیات سے زیادہ بنیادی کردار مذہبی اساسات کا ہوتاہے ۔ یہاں سب کچھ جہادی اور فکری بنیادوں پر منظم ہوتا ہے ۔ قرآنی ارشادات ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے کارنامے اس تحریک کو بنیادی پالیسیاں فراہم کرتی ہیں ۔
اس طرح کی نظریاتی تحریکوں میں قائد اور قیادت کی بنیادی ذمہ داری اپنے افراد اور پیروکاروں کی نظریاتی اور اخلاقی تربیت اور انہیں فکری حوصلہ دینا ہوتا ہے ۔
امیرالمومنین ملا محمد عمرمجاہد رحمہ اللہ نے اسلامی تحریک کے آغاز اور اور پھر امارت اسلامیہ کی تاسیس کے وقت جہادی قیادت اور رہنمائی کے لیے قبل ازیں ایسے بابصیرت اور قائدانہ خصوصیات کے حامل لوگوں کی تربیت کی ہے جنہوں نے جہاد اور مزاحمت کے شدیدترین حالات میں بھی اس جہادی قافلہ کو منزل مقصود تک پہنچایا ۔
ایسی بہادر اور غیور شخصیات جو ہر طرح کے شدید حالات کا سامنا کرنے کی صورت میں نہ گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں اور نہ خطرناک زمانی اور مکانی حالات سے متاثر ہوتے ہیں ۔
ان بابصیرت شخصیات اور مدرسہ عمری کے ان سنجیدہ طلبہ میں سے امارت اسلامیہ کے موجودہ منتخب امیر ملا اختر محمد منصور حفظہ اللہ بھی ہیں جنہوں نے عملی طورپر قیادت کے معاملات عالیقدر امیرالمومنین رحمہ اللہ کی حیات ہی میں شروع کردیےتھے ۔ اور ان کی وفات کے بعد امارت اسلامیہ کے اہل حل والعقد ، معتبر شخصیات ، علماء کرام ، جہادی رہنماوں اور دیگر قومی شخصیات کی جانب سے انہیں نئے امیر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا ۔باوجود اس کے کہ امارت اسلامیہ کے نئے امیر جہادی اور تحریکی حلقوں میں جانی پہچانی حیثیت رکھتے ہیں مگرچونکہ امارت اسلامیہ کے تمام مجاہدین اور اسلامی دنیا کے تمام محبان دین کی خواہش اور شوق ہے کہ نئے امیر کی ذات کا مکمل تعارف حاصل کریں اور انہیں پہچان سکیں ۔ اس لیے ان کا تفصیلی تعارف پیش کرنے کے لیے ذیل کی سطور رقم کی جارہی ہیں ۔
پیدائش :
محترم ملا اختر محمد منصور حفظہ اللہ الحاج محمد جان کے صاحبزادے، 1968 میں ان کی پیدائش قندہار ضلع میوند کے بند تیمور گاوں میں ہوئی ۔
چونکہ ان کا خاندان اپنے علاقے کی سطح پر ایک دیندار اور علم دوست گھرانہ تھا اور ان کے والد ایک علم دوست شخص تھے اس لیے منصور صاحب کی صحیح تربیت کے لیے ان کا پہلا انتخاب دینی تعلیم کا حصول تھا۔
تعلیم:
جناب منصور صاحب کو سات سال کی عمر میں ان کے والد نے اپنے علاقے کے ایک دینی ادارے میں داخل کروایا ۔ چونکہ بچپن ہی سے ان میں ذکاوت اور سمجھداری کے علامات ظاہر تھے اس لیے اپنے والد کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ کی جانب سے بھی ان کی خصوصی تربیت کا اہتمام ہونے لگا۔ انہوں نے اپنی بے پایاں علمی قابلیت کے ذریعے کم وقت میں اپنی ابتدائی دینی اور عصری تعلیم کامیابی سے حاصل کی ۔ مزید اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بعض مشہور مدارس کا رخ کیا ۔ وہاں بھی اپنی فطری ذکاوت اور نیک اخلاق کے باعث اپنے ہم مکتبوں میں نمایاں قابلیت اور اخلاق کے مالک رہے ۔ وہیں عالیہ سطح کے علوم حاصل کیے ۔
منصور صاحب ابھی علوم کے ابتدائی مراحل میں تھے کہ افغانستان کا سیاسی اقتدار کمیونسٹوں کے ہاتھوں میں چلا گیا اور افغانستان کے مجاہد عوام نے ان کے خلاف اسلامی تحریک کا آغاز کردیا ۔
جہاد اور سیاسی جنگ :
1978ء میں افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کے بعد افغانستان کے مجاہد عوام نے اس کے خلاف اسلامی تحریک اور جہاد کا آغاز کردیا ۔
سوویت جارحیت کے درمیانے ادوار میں جب ملا اختر محمد منصور صاحب جوان ہوئے اس وقت اپنی دینی تعلیم کی تکمیل کے لیے پھر سے تعلیمی سلسلے سے جڑنا چاہتے تھے، جارح قوت کے خلاف مسلح جہاد کے لیے اپنے جہادی جذبے کی وجہ سے اپنی دینی تعلیم ادھوری چھوڑ دی ۔ مگر علم کا بے پاں شوق ہونے کی وجہ سے جب بھی جہاد سے لوٹتے اپنے خاص اساتذہ سے اپنی بقیہ ماندہ پڑھائی کی تکمیل کرنے لگتے ۔ اسی طرح مضبوط عزم کے ساتھ پڑھائی جاری رکھی اور موقوف علیہ تک پہنچادی ۔ بعدازاں انہوں نے مستقلا میدان جہاد کا انتخاب کیا اور محاذوں پر رہنے لگے ۔
محترم منصور صاحب نے اس وقت تک اپنی زندگی کے دو ہی عشرے پورے کیے تھے ۔ انہوں نے ایک بہادر اور غیور مجاہد کی حیثیت سے شعوری طورپر اپنے دین اور ملک کے دفاع کی خاطر جارحیت پسندوں اور داخلی کمیونسٹوں کے خلاف مسلح جہاد کا آغاز کردیا ۔
انہوں نے 1985 میں جہادی کارروائی کے لیے قندہار کے مشہور جہادی کمانڈر قاری عزیز اللہ شہید کے محاذ سے اپنی جہادی زندگی کا آغاز کیا ۔ ضلع پنجوائی کے علاقے پاشمول میں افغانستان کی سطح پرمشہور جہادی شخصیت الحاج ملا محمد حسن اخوند کی سرپرستی میں سوویت جارحیت پسندوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کے خلاف جہادی کارروائیاں کیں ۔ قاری عزیز اللہ صاحب شہید رحمہ اللہ کا محاذ مولوی محمدنبی محمدی مرحوم کی تنظیم حرکت انقلاب اسلامی سے ملحق تھا ۔ قاری عزیزاللہ کی شہادت کے بعد کمانڈر حاجی محمد اخند کی قیادت میں جہادی شخصیت مولوی محمد یونس خالص کی تنظیم اسلامی حزب میں انہیں ذمہ داری دی گئی ۔
منصور صاحب نے قندہار میں سوویت یونین جارحیت پسندوں اور ان کے داخلی حامیوں کے خلاف بہت سی فوجی کارروائیوں میں فعال حصہ لیا ۔ 1987 میں قندہارضلع پنجوائی کے علاقے سنزری میں روسیوں کے ایک سٹریٹجک مرکز پر براہ راست حملے کے دوران ایسے زخمی ہوئے کہ ان کے جسم پر تیرہ زخم آئے مگر اللہ تعالی نے انہیں شفا دے دی ۔ دوسری بار 1997ء میں مئی کے مہینے میں امارت اسلامیہ کی حکومت میں مزارشریف کے ہوائی اڈے میں زخمی ہوگئے اور اسی زخمی حالت میں مخالفین کے ہاتھوں اسیر بھی ہوگئے ۔
تحریک اسلامی طالبان میں بنیادی کردار:
1992ء میں افغانستان میں کمیونسٹ نظام کے خاتمے اور داخلی جنگوں کے آغاز کے بعد جناب منصور صاحب اور ان کے محاذ کے دیگر مخلص مجاہدین نے اسلحہ رکھ دیا اور اقتدار کی خاطر شروع ہونے والی جنگ میں کسی کا ساتھ نہیں دیا ۔
منصور صاحب جو اس وقت ایک نامور مجاہد بن چکے تھے اور مجاہدین کے درمیان اچھی شہرت رکھتے تھے انہوں نے ملامحمد رباني ، شهید حاجي ملامحمد،او شهید ملا بورجان رحمھم اللہ کی طرح جنگی مصروفیات ترک کردیں اور کچھ تعلیمی اور تربیتی امور میں مصروف ہوگئے ۔
1994 میں امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی جانب سے طالبان کے نام سے اسلامی تحریک کا آغاز ہوا تو انہوں نے اسے آگے بڑھانے میں محوری کردار ادا کیا ۔
ان کی انتظامی اور جہادی صلاحیتوں کے باعث طالبان تحریک کے سربراہ کی جانب سے انہیں اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں جن میں سے کچھ درجہ ذیل ہیں :
1۔ جنوب مغربی زون میں اسلامی تحریک طالبان کی کامیابی اور قندہار پر قبضہ کے بعد امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی جانب سے ان پر بے پناہ اعتماد کے باعث انہیں قندہارائیرپورٹ کا مرکزی سربراہ متعین کیا گیا ۔
2۔ طالبان کے ہاتھوں قندہار کی فتح کے بعد قندہار فضائی افواج اور فضائی دفاع کی ذمہ داری انہیں دی گئی ۔
3۔ 1996 میں دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد انہیں فضائیہ اور سیاحت کا وزیر بنایا گیا ۔
4۔ وزارت کے دوران ہی امیرالمومنین مرحوم کی خصوصی ہدایات اور حکم پر وزارت دفاع سے منسلک فضائی دفاع کی مرکزی کمانڈ بھی انہیں دے دی گئی ۔ افغانستان فضائی سفر اور سیاحت کے شعبے میں انہوں نے بہت سی تبدیلیاں اور اصلاحات کیں جن میں کچھ باتوں کا تذکرہ مختصر طورپر یہاں کریں گے ۔
کابل کی فتح کے وقت اس شہر میں خانہ جنگی کے باعث فضائیہ کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا ۔ فضائیہ کے تمام املاک تباہ ہوچکے تھے ۔ محترم منصور صاحب نے اپنی تعمیرنو کی پالیسی کے تحت اس شعبے سے منسلک تمام تباہ شدہ املاک ، ائیرپورٹوں اور طیاروں کو پھر سے ٹھیک کروایا
یہ وہ وقت تھاجب امارت اسلامیہ شدید اقتصادی مشکلات اور عالمی پابندیوں کا شکار تھی ۔ مگر منصور صاحب نے انہیں نامناسب اقتصادی حالات میں پہلے کابل کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ اور اس سے ملحق تمام تنصیبات کی ازسرنو تعمیر کی اور پھر آریانا ائیر لائن اندرونی وبیرونی سفروں کے لیے عالمی معیار کے مطابق درست کردی ۔
اس کے بعد قندہار ، ننگرہار ، مزارشریف اور قندوز کے فضائی اڈے ہر طرح کی عوامی اور فوجی پروازوں کے لیے تیار کرکے مختلف جدید وسائل سے مزین کردیے ۔
امارت اسلامیہ کی عسکری اور عوامی شعبوں میں مختلف ترقیاتی اور فلاحی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ افغانستان کا بڑا قومی سرمایہ یعنی فضائی قوت اور اس سے متعلق طیارے اور تباہ شدہ فضائی اڈے پھر سے تعمیر کیے ۔
طیاروں اور ہوائی میدانوں کی تعمیر نو کے علاوہ اندرون افغانستان میں چوبیس گھنٹے اندرونی پروازوں کی سہولت مہیا کرنے کے علاوہ سالوں بعد پہلی بار ہزاروں افغان حاجیوں کے لیے آریانہ ائیر لائن کے ذریعے سفر کی سہولتیں مہیا کیں ۔
افغانستان جو کبھی عالمی سطح پر انتہائی ترقی یافتہ فضائی دفاعی قوت رکھتا تھا روسی جارحیت اور تنظیمی جھگڑوں کی وجہ سے تقریبا سارا کہ سارا تباہ ہوکر ناکارہ ہوچکا تھا ۔ یہاں تک کہ کچھ طیارے پرزوں میں بٹ کر سکریپ میں بیچ دیے گئےتھے، مگر منصور صاحب نے دن رات کوششیں کرکے ان ناکارہ طیاروں کو پھر سے کار آمد بنایا ۔
محترم ملا اختر محمد منصور حفظہ اللہ نے امارت اسلامیہ کے دور حکومت کے پورے عرصے میں افغانستان کی فضائی پروازوں کو احیاء اور ترقی دینے کےلیے بہت کوششیں کیں ۔
یہاں مشت نمونہ از خروارے کے طورپر اس کا مختصر تذکرہ کریں گے ۔
جناب منصور صاحب نے فضائیہ کا معیار بہتر بنانے اور دیگر ممالک کے ٹرانزیٹ پروازوں کو جو افغانستان کے حدود سے گذرتے تھے کابل ، قندہار ، ننگرہار ، مزار اور ہرات کے ہوائی اڈوں میں ویسٹ دستگاہ کی سہولتیں مہیاکیں ۔ جو اب بھی دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں ۔ اس دور میں ان ہوائی اڈوں سے ٹیکس کی مد میں ملینوں ڈالر آمدنی ہوتی تھی جو اب بھی جاری ہے ۔ اس دور میں سیول افغان فضائیہ اور ائیرفورس کے 44 مختلف ٹرانسپورٹ اور جنگی طیارے جو خانہ جنگیوں میں تباہ ہوکر ناکارہ ہوگئے تھے ۔ انہوں نے ان تباہ شدہ طیاروں کی از سرنو درستگی اور انہیں پرواز کے قابل بنایا جس کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے :
وہ 44 مختلف النوع طیارے جو منصور صاحب کی وزارت کے دور میں از سرنو بنائے گئے وہ حسب ذیل ہیں ۔
ٹرانسپورٹ طیارے :
تین عدد این 12،چار عدد این 32، دو عدد این 26
جنگی طیارے :
آٹھ عدد جیٹ میگ 21، تین عدد جیٹ سوM420، پانچ عدد جیٹ سو 22
ہیلی کاپٹر:
چھ عدد می8، آٹھ عدد می 35، پانچ عدد ایل 39
اس کے علاوہ عوامی ٹرانسپورٹ کے لیے ایک روسی ساختہ ماڈل 41 اور ایک این24 اور افغان آریانہ ائیرلائن کمپنی کا ایک امریکی بوئنگ طیارہ بھی اس دور میں بیرون ملک میں ٹھیک کرواکر قابل استعمال بنایا گیا ۔
اسی طرح 5 روسی ساختہ ٹرانسپورٹ طیارے آزاد بازار میں خریدے گئے ۔ ان تمام ریپئر شدہ یا خریدے گئے طیاروں کے علاوہ افغانستان میں درجنوں کی تعداد میں صحیح سالم جنگی ، ٹرانسپورٹ طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی تھے جو ایک مکمل فضائی قوت تشکیل دے رہے تھے ۔ اس کی کارکردگی کا بہترین مظاہرہ قندوز اور دیگر دورافتادہ علاقوں میں مجاہدین کے محاصرے اور دورافتادہ محاذوں اور خطوں کو مسلسل فضائی کمک پہنچانے کی صورت میں دیکھنے میں آیا ۔اس کے علاوہ ملک کے اندر اور بیرون ملک منظم طریقے سے مسافروں کی منتقلی کا بہترین انتظام بھی تھا۔ مگر امریکی جارحیت اور ہوائی اڈوں کو بمباری کا نشانہ بنانے کی وجہ سے یہ قومی ملکیت مکمل طورپر تباہ ہوگئی ۔
ملا اختر محمد منصور صاحب حفظہ اللہ امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں جنرل مالک کی غداری کی وجہ سے شمال میں 6 ماہ تک قید بھی رہے ۔ مگر اللہ تعالی کے فضل سے اس وقت واپس رہا ہوئے جب جنرل مالک جنرل دوستم کے حملے سے خوف زدہ ہوکر فاریاب سے بھاگ گیا ۔ اس طرح وہاں کی جیلوں سے قیدیوں کو نکلنے کا راستہ ملا ۔
امریکی جارحیت کے خلاف مسلح مزاحمت:
7اکتوبر 2001 کو افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد منصور صاحب نے ان کے خلاف مسلح جہاد بھی شروع کردیا ۔ محترم منصور صاحب کے لیے ان کی جہادی زندگی میں یہ مرحلہ انتہائی شدید آزمائشوں اور چیلنجوں سے بھرا تھا۔
انہیں امیرالمومنین رحمہ اللہ کی جانب سے امارت اسلامیہ کی رہبری شوری کی رکنیت کے علاوہ صوبہ قندہار کی جہادی ذمہ داری بھی دی گئی ۔
اس وقت افغانستان کے دیگر صوبوں کی طرح قندہار کو امریکا کے خلاف جہاد کے لیے ایک مضبوط کمانڈر کی ضرورت تھی ۔ کیوں کہ مجاہدین کے خلاف جنوب مغربی خطے کے تمام جنگی منصوبے اسی صوبے سے طے کیے جاتے تھے ۔
یہی وجہ تھی کہ ہلمند کے بعد پورے زون کی سطح پر قندہار میں سب سے زیادہ امریکی ، کینیڈین اور دیگر فوجی تعینات تھے ۔ بگرام کے بعد سب سے بڑا مرکزی اڈہ انہوں نے قندہار ائیرپورٹ میں قائم کیا ۔
منصور صاحب نے اپنی جہادی بصیرت سے قندہار میں موجود جارحیت پسندوں کے خلاف ایسے منصوبے تشکیل دیے جن کی روک تھام میں اپنے دور کے معروف ترین فوجی جرنیل اور عسکری ماہرین ناکام رہے ۔
انہوں نے اپنی جہادی مہارتوں اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتےہوئے نئے تیکنیک آزمائے ۔ پڑوس کے صوبوں کے جہادی ذمہ داران کے ساتھ مشاورت کے بعد قندہار سے نکل کر انہوں نے پورے جنوب مغربی حصے کی سطح پر پلان مرتب کرنے شروع کردیے ۔ قندہار کے علاوہ پڑوس کے صوبوں اروزگان ، زابل اور ہلمند میں صلیبی جارحیت پسندوں پر ہلاکت خیز حملے کیے ۔
سال 2003 اور 2008 میں قندہار کا مرکزی جیل دو مرتبہ خلاف توڑ دیا گیا اور دونوں مرتبہ 15 ، 15 سو کے قریب قیدی مجاہدین جیل سے رہائی پاگئے ۔ یہ دونوں واقعات منصور صاحب کے دور میں ہوئے ۔
بطور نائب امارت اسلامیہ :
2007 میں امارت اسلامیہ کے سابق نائب امیر ملا عبیداللہ اخوندگرفتار ہوگئے تو عالیقدر امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد نے اختر محمد منصور حفظہ اللہ کو امارت اسلامیہ کے دوسرے معاون ملا برادر اخوند کے ساتھ امارت اسلامیہ کا دوسرا نائب مقرر کیا اور یہ ہدایت بھی کی کہ قندہار بہت اہم ہے اس صوبے کے گورنر بھی رہنا اور دونوں ذمہ داریاں نبھاتے رہنا ۔
2010 میں اس وقت جب امارت اسلامیہ کے ایک سیکرٹری الحاج ملاعبید اللہ اخوند کو پاکستان کی جیل میں شہید کردیا گیا ایک اوردوسرے سیکرٹری ملا عبدالغنی برادر کو امریکی اور پاکستانی فوجیوں کی مشترکہ کارروائی میں پاکستان کے شہرکراچی میں گرفتار کرلیا گیا ۔ توامیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد نے محترم منصورصاحب کو نائب و سیکرٹری اور ا مارت اسلامیہ کے تمام امور میں مرکزی مسئول کے طور پر انہیں منتخب کیا۔
یہ وہ وقت تھا جب اوباما کی جانب سے افغانستان میں مزید 30ہزار فوجیوں کا اضافہ کیا گیا اور افغانستان میں جہادی مزاحمت کو شدید مشکلات پیش آنے لگیں ۔
اسی لیے جارحیت پسندوں کی ایک لاکھ سے زائد فوج جدید ترین وسائل سے لیس 3لاکھ 35ہزار داخلی فوجیوں کی آڑ لے کر مجاہدین کے خلاف ملک کے کونے کونے میں جنگ میں مصروف تھی ۔ ایک جانب انتہائی حساس سیکیورٹی حالات کے باعث اس مزاحمتی تحریک کی قیادت کے لیے امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کا منظر عام پر آنا مشکل تھا تو دوسری جانب جہادی محاذ پر عسکری اور انتظامی قیادت کی خلا تھی جس کی وجہ سے جنگ میں دشمن کا پلڑا بھاری ہونے لگا تھا۔
مجاہدین پر فوجی دباو کے ساتھ ساتھ سیاسی اور پروپیگنڈا پریشر بھی بڑھ رہا تھا۔ محاذوں پربہت سے مجاہدین شہید ہوچکے تھے اور بہت سے رہنما گرفتار ہوچکے تھے ۔
اس طرح کے حساس ترین حالات میں امیرالمومنین رحمہ اللہ کی جانب سے صلیبی جارحیت پسندوں کے خلاف مجاہدین کو سنبھالادینےکی ذمہ داری محترم منصور صاحب کو دی گئی۔ یہاں تک کہ ان کا کوئی معاون یا نائب تک ان کے لیے مقرر نہیں کیا گیا ۔ محترم منصور صاحب نے عملا اللہ تعالی کی نصرت اور رہبری شوری کے تعاون سے جنگ کے اس شدید ترین وقت میں مجاہدین کی ایسی قیادت کی کہ انہیں کسی طرح کی عملی قیادت کی کمی کا احساس نہ ہوا۔
یہی وجہ تھی کہ 2010 کا سال دشمن کے اپنے اعتراف کے مطابق ان کے لیے سب سے خونی سال رہاجبکہ مجاہدین نے تمام ادوار میں سب سے زیادہ کاری حملے دشمن پر اسی سال کیے ۔ جس میں دشمن کے اعتراف کے مطابق 770 فوجی ہلاک ہوگئے ۔
اسی طرح مجاہدین نے منصور صاحب کی قیادت میں بہت سے علاقے فتح کیے اور وہاں منظم اسلامی حکومت قائم کی ۔
امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی وفات کےبعد:
23 اپریل 2013 کو جب امیرالمومنین رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو امارت اسلامیہ کی رہبری شوری کے کئی ارکان ، جید علماء کرام ، گذشتہ چودہ سالوں میں ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے خصوصی قاصد اور ان کے دائمی ساتھی جو ان کی وفات تک ان کے ساتھ رہے سب نے منصور صاحب کی ہاتھ پر بیعت کردی اور انہیں امارت اسلامیہ کے امیر کی حیثیت سے متعین کردیا ۔
2013 صلیبی جارحیت پسندوں اور ان کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے درمیان مقابلے اور زور آزمائی کا آخری سال تھا۔ اس لیےامارت اسلامیہ کی رہبری شوری ، اہم ترین قیادت اور چند شیوخ اور اکابر علماء نے یہ فیصلہ کیا کہ اب صلیبی جارحیت کے خلاف جنگ کے آخری مراحل ہیں اور 2014 میں مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے ۔ دشمن نے خود اپنے فوجوں کی پسپائی کے لیے 2014 کے سال کا تعین کیا ہے۔ اور یہ سال ابھی آنے والا ہے اس لیے جہادی مصلحت اور علماء کی حمایت کے مطابق یہ ٹھیک ہوگا کہ مرحوم امیرالمومنین کی وفات کی خبر ان معدودے چند افراد تک محدود رہے ۔
یہی وجہ تھی کہ یہ بنیادی راز بہت معجزانہ طریقے سے مخصوص جہادی مصالح کی بنیاد پر 30جولائی 2015 تک محفوظ رکھا گیا۔
امارت اسلامیہ کے منتخب امیر کی حیثیت سے :
14شوال المکرم 1436ھ بمطابق 30جولائی 2015 کو جب امیرالمومنین رحمہ اللہ کی وفات کاباقاعدہ اعلان کیا گیا منصور صاحب نے مزید اطمینان کی خاطر رہبری شوری کےارکان اور علماء کرام کو اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دیدیا ۔ اور ان سے کہا کہ تم لوگ جس شخص کو منتخب کروگے میں اسی پر راضی اور متفق ہوں ۔
بعد ازاں امارت اسلامیہ کی رہبری شوری کے ارکان ، مشائخ اور مشہور علماء کرام کے ایک اجتماع نے جسے اہل الحل والعقد کا اعتبار حاصل تھا ، اجتماع میں منصور صاحب کی عدم موجودگی میں طویل بحث وتمحیص کی،مختلف مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مشاورت کی اور اس کے بعد امارت اسلامیہ کے نئے امیر کی حیثیت سے ان کا انتخاب کیا ۔
امارت اسلامیہ کے امیر کی حیثیت سے محترم ملا اختر محمد منصور صاحب حفظہ اللہ کے انتخاب کے بعد رہبری شوری کے ارکان ، امارت اسلامیہ کے تمام کمیشن کے سربراہان ، عدالتوں کے مرکزی ذمہ داران ، عسکری کمانڈروں اور افغانستان کے 34 صوبوں کے صوبائی رہنماوں ، عسکری کمیشن کے ذمہ داران ، ملک کی علمی ، قومی ، جہادی ، سیاسی اور ثقافتی شخصیات اور امارت اسلامیہ کے تمام مسلح مجاہدین نے بیک آواز نئے امیر سے بیعت کا اعلان کردیا ۔ ان تمام عسکری اور عوامی حلقوں اور ملک کی بڑی شخصیات نے اپنی بیعتیں صوتی پیغامات اور کتابت کی صورت میں ، امارت اسلامیہ افغانستان کے شعبہ نشریات کو بھیج دیں ۔
نئے امیر کی حیثیت سے تقررشریعت کی نگاہ میں :
علماء کرام اور سیاسی ماہرین نے اسلام میں نئے امیر کےلیے سب سے بہتر طریقہ علماء اور شوری اہل حل والعقد کی جانب سے انتخاب کو قرار دیا ہے ۔ اہل حل والعقد کا اطلاق اس گروپ پر ہوتا ہے جو علم ، تجربے اور سمجھداری رکھنے والے افراد پر مشتمل ہواور کم از کم ایک شوری کا اطلاق اس پر ہوتا ہو ۔
خلفاء راشدین کے انتخاب کے مختلف طریقوں سے جو عمومی طریقہ مستنبط کیا گیا ہے وہ یہی شوری کی جانب سے امیر کے انتخاب کے تین مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ ترشیح ، دوسرا انتخاب اور تیسرا بیعت کا ہے ۔
ترشیح یا قیادت کے لیے منتخب ہونا خود اس شخص کی جانب سے نہیں ہوتا جو زعیم مقرر ہورہا ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے إنا والله لا نولي هذا العمل أحدا سألة , أو أحدا حرص عليه
)متفق عليه ) (اخرجه البخارى (7149 ) ومسلم ( 1733 )
ترجمہ :واللہ ہم اس شخص کو اس قیادت کے لیے نہیں چنیں گے جو خود اسے چاہے یا اس کا حرص کرے ۔
اس لیے ترشیح دوسروں کی جانب سے ہوتی ہے یا ایک آدمی کی جانب سے جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑا اور بیعت کے لیے انہیں آگے کردیا اور پھر صحابہ کرام نے امام کے طورپر ان کا انتخاب کیا ۔ یا یہ انتخاب بہت سے لوگوں کا ہوگا ۔ جس طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت سے قبل کئی صحابہ کانام لیا خلافت کے لیے ، ان کے درمیان سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ خلیفہ بنے ۔ ملا اختر محمد منصور صاحب نے کبھی بھی خود کوامارت کے لیے پیش نہیں کیا ۔ پہلے اجلاس میں بھی ان کا نام امیر کے لیے منتخب ہوگیا تھا دوسرے اجتماع میں انہوں پھر سے صراحتا شوری سے کہا کہ میں قیادت کا طالب نہیں ہوں بلکہ ایک خادم کی حیثیت سے خدمت کرنا چاہتا ہوں ۔ مگر شوری نے صرف انہیں ہی واحد اہل فرد کے طورپر منتخب کیا ۔ طویل بحث اور غور کے بعد اسی شوری کی جانب سے جو علماء کرام ، شیوخ اور امارت اسلامیہ کے رہبری شوری کے ارکان پر مشتمل تھا جو سب کے سب علمی اور جہادی تجربات رکھنے والے لوگ ہیں ان سب کی جانب سے ان کا زعیم کی حثیت سے انتخاب کیا گیا اور شوری کے تمام ارکان نے ان سے بیعت کی ۔ بعد ازاں دیگر ذمہ داران ، عام مجاہدین اور مسلمانوں نے ان سے بیعت کا سلسلہ شروع کردیا ۔
اس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ ان کا انتخاب مکمل طورپر شرعی طریقے سے کیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول وعرض میں لاکھوں افراد کے علاوہ سینکڑوں قرآن وحدیث کے مشائخ نے ان کی زعامت قبول کی ۔ اسے شرعی قرار دیا اور ان سے بیعت کی ۔
قائدانہ شخصیت:
امارت اسلامیہ افغانستان کے نئے زعیم امیرالمومنین ملا اختر محمد منصور امارت اسلامیہ کے تاسیسی ارکان میں سے انتہائی مدبر ، موثر اور مضبوط قوت رکھنے والے فرد سمجھے جاتے ہیں ۔
انہیں وہبی طریقے سے قیادت اور رہنمائی کی خصوصی صفات اور خصوصیات سے نوازا گیا ہے ۔ تقوی ، اخلاص ، جہادی بصیرت ، سیاسی درایت اور کاموں کو عملی طورپر نظم وضبط دینا ان کے کام کی خصوصیات ہیں ۔
محترم ملا اختر محمد منصور صاحب امارت اسلامیہ کے تمام جہادی فعالیتوں کی تنفیذ میں اپنے جہادی رہنما ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔ جہادی اہداف کا حصول ، خارجی جارحیت پسندوں سے ملک کی آزادی ، ملک میں شرعی نظام کی مضبوطی ان کے جہاد کے بنیادی مقاصد ہیں ۔ وامرھم شوری بینھم پر عمل کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے مثبت مشورے غور سے سنتے ہیں ۔ کام اہل کار لوگوں کو سونپتے ہیں ۔ اور ذمہ داری دینے کے بعد ان پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں ۔ ذمہ دار افراد کو ہمیشہ عوام پررحم اور ان سے ہمدردی کی تلقین کرتے ہیں ۔
اس بات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کہ امارت اسلامیہ تمام افغانوں کا مشترکہ گھر ہے اس لیے سب کو اسی طرح یہاں رہنا ہوگا۔
فکری ومذہبی خیالات :
محترم ملا اختر محمد منصور صاحب مذہبی لحاظ سے اہل سنت والجماعت کے پیروکار اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مقلد ہیں ۔
حالات اور سیاسی پیچیدگیوں کی نزاکت سے بخوبی واقف ہیں ۔
ان سے ملنے کے بعد ہی ان کی سنجیدگی ، وقار اور متانت کا صحیح ادراک ہوسکتا ہے ۔ سادگی اور بے تکلفی ان کی زندگی کا خاص حصہ ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی سیرت اور مطالعے سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں ۔ مجاہدین سے مل کر ان سے دشمن سے آمنے سامنے کی جنگ کے متعلق حالات پوچھتے ہیں ۔
اپنی تمام تر جہادی اور انتظامی مصروفیات سنبھالنے کے ساتھ ساتھ میڈیا پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ جہادی لکھارریوں اور امارت اسلامیہ کے فرہنگی اور نشریاتی کارکنوں کو ان کی نشریات اور تحریروں کے حوالے سے خصوصی مشاورت اور احکام دیتے ہیں ۔
روزانہ کی مصروفیات اور زندگی کی چند خاص خصوصیات:
محترم منصور صاحب اپنی روز مرہ زندگی کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے کرتے ہیں ۔ جہادی محاذوں اور عسکری ذمہ داران سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں ۔ دشمن پر ہونے والے حملے کا پلان خود اپنی نظر سے گذارتے ہیں ۔ جہادی حکام کو عوام کے جان ومال کے تحفظ کی تلقین اور حکم کرتے ہیں ۔ وہ ایک فوجی کمانڈر کی طرح اپنے جہادی ساتھیوں ، محاذ کے مجاہدین سے احترام اور ہمدردی کا سلوک کرتے ہیں ۔ مجلس میں علماء ، اساتذہ اور بڑوں کی بات چیت کا خاص احترام رکھتے ہیں ۔ سیاسی امور میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں اور اس حوالے سے اہل رائے ساتھیوں سے رائے ضرور لیتے ہیں ۔
رائفل سے نشانہ بازی انہیں پسند ہے ۔ جہادی مشق کی پابندی کو سب سے مناسب ورزش قرار دیتے ہیں ۔
خود بہت کم بولتے ہیں دوسروں کی زیادہ سنتے ہیں ۔ صاف اور کھلے کپڑے پہنتے ہیں ۔ خوراک ، پوشاک اور زندگی کی دیگر ضروریات میں اسراف سے نفرت کرتے ہیں ۔ ان کی زندگی کا سب سے بنیادی مشغلہ جہادی امور کی تنظیم اور ان کی مسلسل نگرانی ہے ۔ اسی تنظیم سازی اور نگرانی میں دن گذارتے ہیں ۔
posted from Bloggeroid
No comments:
Post a Comment