قسط نمبر ١
شامی انقلاب، شامی خانہ جنگی، شامی جہاد، شامی جدوجہد یا شامی جنگ ایک مسلح جدوجہد کا نام ہے جو کہ 2011 میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہروں اور پھر بشار الاسد کے مظالم سے دفاع اور اقتدار کا تختہ اُلٹنے کی مسلح جِدوجہد سے شروع ہوئی اور اب یہ عالمی طاقتوں کی مداخلت سے ایک کثیرالجہت پراکسی جنگ میں بدل چکی ہے.
شامی جدوجہد کے بارے میں جاننے کے لئے شام کی سیاسی تاریخ کا جاننا ضروری ہے اس لئے پہلے شام کی سیاسی تاریخ پہ ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں.
ملک شام 1946 میں ایک آزاد جمہوری ریاست بنا لیکن 1949 میں پے در پے ہونے والی 3 بغاوتوں کے بعد ملک میں ایک فوجی حکومت قائم ہو گئی.
1954 میں ایک اور بغاوت کے نتیجے میں اس فوجی حکومت کا خاتمہ ہو گیا.
1958 سے 1961 تک شام اور مصر متحدہ عرب جمہوریہ کو نام سے ایک سیاسی اتحاد کے طور پہ چلتے رہے جب 1961 میں شام اس اتحاد سے الگ ہو گیا.
اس دوران شام کا نظامِ حکومت صدارتی بنا دیا گیا.
1963 میں ایک بغاوت کے نتیجے میں ایک قوم پرست اشتراکی جماعت بعث پارٹی اقتدار میں آئی.اس حکومت میں حافظ الاسد (جو موجودہ بشار الاسد کا باپ ہے) کو شامی فضائیہ کی کمان دے دی گئی.
1966 میں بعث جماعت کے اندر بغاوت ہوئی اور پارٹی کے سربراہ مائیکل افلاق اور دوسرے پرانے لیڈروں کو ہٹا دیا گیا اور بعث پارٹی کی لیڈرشپ اور اس کے نتیجے میں شامی حکومت پہ فوجی حمایت یافتہ صالح جدید کا کنٹرول ہو گیا اور جرنل حافظ الاسد اس نئی حکومت کا وزیرِ دفاع بنا.
1971 میں ایک اور بغاوت کے بعد حافظ الاسد نے صالح کو اقتدار سے الگ کر دیا اور بعث پارٹی کا سربراہ بن کر ملک شام کے اقتدار پہ قابض ہو گیا اور اپنی موت (2000) تک شام پہ قابض رہا. حافظ الاسد کا اقتدار ایک بادشاہی نظام کی طرح تھا جس کا مرکز حافظ الاسد خود تھا.اپنے اقتدار کے شروع میں اس نے اپنے اقتدار کو جمہوری رنگ دینے کے لئے اپنی کیبنٹ میں مختلف طبقے کو لوگوں کو نمائندگی دی لیکن تمام اختیارات اور فیصلہ سازی کا اختیار اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا.
اپنے اقتدار کے شروع (1971) سے لے کر اپنی موت (2000) تک حافظ الاسد نے ملک میں ایمرجنسی نافظ کئے رکھی. ایمرجنسی کے قانون کے نام پہ ملک میں 3 سرکاری اخبار تھے، سیاسی مخالفین پہ ملٹری کورٹس میں مقدمے کیے جاتے اور اکثر سیاسی مخالفین بنا کسی ملٹری یا سول ٹرائل کے غائب کر دئے جاتے. ہیومن رائٹس کی رپورٹس کے مطابق حافظ کے اقتدار میں 17000 مخالفین بنا کسے ٹرائل کے قتل کر دئے گئے. 5 یا 5 سے ذیادہ افراد کا ایک جگہ جمع ہونا جرم تھا. ہر 7 سال کے بعد حافظ الاسد صدارت کے لئے ریفرنڈم کرواتا اور دوبارہ صدر منتخب ہو جاتا. 4 دفعہ کرائے جانے والے ریفرنڈم میں حافظ الاسد نے 3 بار %100 ووٹ لئے اور ایک بار %99 سے ذیادہ ووٹ حاصل کئے.
ایسے نتائج سے اُن انتخابات کی "شفافیت" کا اندازہ لگانا ذیادہ مشکل نہیں.
شام آبادی میں تناسب کے اعتبار سے %74 آبادی سنی ہے، %12 آبادی علوی شیعہ ہے، %10 عیسائی ہیں اور باقی دوسری اقلیتیں آباد ہیں. حافظ الاسد ایک علوی شیعہ تھا اور اس نے اپنے اقتدار میں ملک کے معاشرے اور اداروں کو مکمل طور پہ فرقوں کی بنیاد پہ تقسیم کر دیا اور آرمی، انٹیلیجنس اور سیکیورٹی کے تمام اداروں میں (علوی) شیعہ مذہب کے لوگوں کو تعینات کر دیا گیا. جو افراد ملک کا نظام چلا رہے تھے ان کی اکثریت حافظ الاسد کے رشتہ داروں پہ مشتمل تھی. سنیوں کو بھی مطمئن رکھنے کے لئے کچھ عہدے دیے گئیے لیکن کاروبارِ حکومت میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا. مثال کے طور پہ شامی فضائیہ کا سابقہ سربراہ جمیل حداد(سنی) کوئی بھی حکم انٹیلیجنس چیف محمد الخولی(شیعہ) کے علم میں لائے بنا نہیں کر سکتا تھا. تمام معملات علوی رشتہ داروں کے ہاتھ میں تھے لیکن حتمی طاقت حافظ الاسد کے ہاتھ میں تھی.
ملک میں کسی قسم کا کوئی اختلاف برداشت نہیں کیا جاتا تھا. 1982 میں اسی حافظ الاسد کے اقتدار میں ہی شام کے شھر حماء میں اہل سنت کا قتلِ عام کا واقعہ پیش آیا جب شامی فوج 27 روز تک شھر کا محاصرہ کر کے لوگوں کا خون بہاتی رہی. شامی ہیومن رائٹس کے مطابق اس قتلِ عام میں 40،000 لوگ شھید کئے گئے. اور یہ بات اب جانتے ہیں کی اصل میں ہونے والے واقعات ان واقعات سے کہیں ذیادہ ہوتے ہیں جن کو ایسے ادارے رپورٹ کرتے ہیں. اس لئے اصل شھدا کی تعداد 40،000 سے کہیں ذیادہ ہو سکتی ہے. حافظ الاسد نے اپنے اقتدار کے دوام کے لئے ہر ہاتھ کو کچل ڈالا ہر آواز کو دباء ڈالا. موجودہ شامی بغاوت چند مظالم کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سالوں سے جاری مظالم، غلامی اور مسلکی تعصبات کے خلاف بغاوت اور جہاد ہے.
حافظ الاسد 10 جون 2000 کو دمشق میں ہارٹ اٹیک سے مر گیا اور اس کے مرنے کے بعد اس کا دوسرا بیٹا بشارالاسد شام کے تخت پہ براجمان ہوا.
حافظ کا اقتدار شام میں علوی شیعوں کا راج تھا. اس کے بیٹے بشار الاسد کے اقتدار میں آنے سے بھی حالات میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اب صورتحال بہت بھیانک ہو گئی ہے.
حافظ الاسد کے بعد شام کا تاج اس کے بیٹے بشارالاسد کے سر پر سجا. شامی حکومت کے جابرانہ رویّے کی وجہ سے عوام میں شروع ہی سے ایک عدم اطمینان اور نفرت سلگ رہی تھی. یہ نفرت اُن علاقوں میں شدید ترین تھی جہاں غربت ذیادہ تھی اور یہ علاقے ذیادہ تر اہل سنت آبادی پہ مشتمل تھے. اس کی ایک مثال درعاء اور حمص کے علاقے ہیں.
شیعہ قوتوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے بڑی چالاکی سے سنی آبادی کو سماجی و اقتصاری لحاظ سے پیچھے رکھا اور کاروبارِ حکومت اور دوسرے اہم شعبہ ہائے زندگی میں شیعہ آبادی کو نوازا گیا.اس طرح شام میں اہم ترین فیصلہ کن عہدوں پہ شیعہ مسلکی فرقہ پرست قابض ہو گئے.بشارالاسد ایک نااہل اور کمزور حکمران ثابت ہوا اور اس کے دورِاقتدار میں مہنگائی اور بےروزگاری بےلگام ہو گئے، مسلکی تعصب شدت اختیار کرتا چلا گیا اور کاروبارِ سلطنت جو کہ حافظ الاسد نے اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا وہ تنزلی کی راہ پہ گامزن ہوا.
حافظ الاسد کے انتقال اور بشارالاسد کے آنے کے فوراً بعد شامیوں میں ایک ریاستی اصلاحات اور حقوق میں تبدیلی کی اُمید پیدا ہوئی اور جولائی 2000 سے ملک میں خفیہ سیاسی و سماجی تنظیمیں اور پلیٹ فارم بنے جہاں پہ لوگ ملک میں سیاسی اصلاحات اور تبدیلی کے مباحثے کرتے. یہ تحریک اگست 2001 میں بڑے پیمانے پہ گرفتاریوں اور تشدد کے بعد کچل دی گئی. یہ عرصہ "دمشق بہار" کے طور پہ یاد کیا جاتا ہے. اس دوران بشارالاسد نے کئی بار اصلاحات کے وعدے کئے جو کہ ہمیشہ کی طرح کبھی ایفاء نہ کئے گئے.
دسمبر 2010 میں تیونس میں حکومت مخالف مظاہروں (عرب بہار) کا آغاز ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا میں پھیل گئے. فروری 2011 تک تیونس اور مصر کی حکومتوں کا تختہ الٹ چکا تھا اور لیبیاء میں خانہ جنگی جاری تھی. باقی ممالک کی حکومتیں اپنے ملک میں عوام کو اصلاحات و سہولیات سے نواز کر اُن مظاہرین کو بہا پھسلا کر بِٹھانے میں لگیں تھیں.
عرب بہار کی لہریں شام بھی پہنچیں لیکن شام میں آذادیء رائے، اجتجاج اور حکومت پہ کسی قسم کی تنقید پر سخت پابندی تھی اور ایسی کوشش کرنے والے پابندِ سلاسل کئے جاتے اور شدید ریاستی تشدد کے حقدار ٹھہرتے.
یہاں ایک اہم بات میں بتاتا چلوں کہ 1962 میں شامی حکومت کی طرف سے ہزاروں کُرد باشندوں سے شامی شہریت واپس لے گئی اور یہ لوگ اُس وقت سے غیر ملکی کہلائے جانے لگے. 2004 میں کُرد علاقوں میں کافی مظاہرے جو حکومتی طاقت سے دبا لئے گئے.
شام میں عرب بہار کے مظاہرے جنوری 2011 میں شروع ہوئے جو مکمل پرامن اور چھوٹی نوعیت کے تھے.شامی حکومت نے ہمیشہ کی طرح ان مظاہروں کے جواب میں تشدد کی راہ اپنائی اور لوگوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کرنا شروع کردیا.حکومتی تشدد اور گرفتاریوں کے جواب میں مظاہروں میں شدت آ گئی. جوں جوں شامی حکومت کا تشدد بڑھتا گیا مظاہرین کی تعداد اور ان کا عزم بھی بڑھتا گیا اور صورتحال حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوتی گئے.
بغاوت کا آغاز وسط مارچ 2011 سے ایک واقعے کے بعد ہوا. اس سے پہلے تک مظاہرین نسبتاً پرامن اور صرف اصلاحات کے طالب تھے.
ہوا یوں کہ کچھ طالبعلموں کو حکومت مخالف نعرے لکھنے پہ گرفتار کیا گیا اور اُن پہ بدترین تشدد کیا گیا. بعض خبروں کے مطابق اُن بچوں کے اعضاء بھی کاٹ دئے گئے. لوگ اس عمل سے شدید اشتعال میں آ گئے اور 18 مارچ کو نمازِ جمعہ کے بعد ہزاروں لوگ مختلف شہروں میں مظاہرے کرنے نکلے جو 3 دن جاری رہے. ان مظاہرین پہ بشاری حکومت کے تشدد کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے. مظاہرین کا مطالبہ قیدیوں کی رہائی اور 50 سال سے جاری ایمرجنسی کے قانون کا ہٹانا تھا.
25 مارچ کو بروز جمعہ یہ مظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے.صرف درعاء میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا.اس کے علاوہ حمص، حماء، بانیاس، جاسم، حلب، دمشق اور لاتاکیہ میں بڑے مظاہرے ہوئے. اُس روز نہتے لوگوں پہ گولیاں چلائیں گئیں، 70 مظاہرین کو شہید کیا گیا، سینکڑوں زخمی ہوئے، ہزاروں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا اور تشدد سے اموات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع ہو گیا.
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق 3 جولائی 2012 تک شامی خفیہ ایجنسیاں ملک میں 27 عقوبت خانے چلا رہیں تھیں. مظاہرین کو تکفیری اور دہشتگرد قرار دے کے مارا جانے لگا اور شامی مسلک پرست حکومت نے جان بوجھ کہ ان مظاہروں کو مسلکی رنگ دینا شروع کر دیا.
اپریل 2011 کے شروع میں شہروں میں شامی فوج طلب کر لی گئی لیکن ان تمام ہلاکتوں، زخمیوں، گرفتاریوں اور تشدد کے باوجود لوگوں کا جوش و جزبہ اور جنون بڑھتا ہی گیا.
اپریل کے آخر میں بشار کو ہوش آیا اور لوگوں کا جوش و جذبہ ٹھنڈا کرنے کے لئے کچھ اقدامات کئے گئے جیسے کہ درعاء کے گورنر کو معزول کر دیا گیا، ایمرجنسی ختم کر دی گئی، کُردوں کی شہریت بحال ہو گئی اور نقاب پہ لگی پابندی ہٹا دی گئی اس کے علاوہ ایک دفعہ پھر اصلاحات کے لمبے چوڑے وعدے کئے گئے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور لوگوں نے اسد خاندان کے 48 سالہ اقتدار سے جان چھڑانے کی ٹھان لی تھی.
جاری ہے...
No comments:
Post a Comment