جہادِ شام کی موجودہ صورت حال
(اگست 2015)
ارضِ شام کی لڑائی اگرچہ روافض کے لیے زیادہ سے زیادہ نقصانات اور صدموں کا باعث بن رہی ہے لیکن اب صورت حال سنجیدہ تر سے پیچیدہ ترین ہوتی جارہی ہے۔۔۔نئی پیش رفت کے مطابق ترکی پہلی مرتبہ شام و عراق میں باقاعدہ طورپرداخل ہوکر لڑائی میں شامل ہوگیا ہے۔۔۔شام کے شمالی علاقوں میں ترکی ایک بفرزون بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔۔۔حلب کے قریب شمال سے لے کر دریائے فرات کے کنارے تک کے علاقے پر یہ بفرزون قائم کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔۔۔اب ترکی ان علاقوں میں داعش کے ٹھکانوں پر بم باری کررہا ہے،داعش کو ان علاقوں سے نکال کر یہاں شامی مزاحمت کاروں کو قبضہ دینے کا منصوبہ ہے۔۔۔دوسری طرف ترکی ‘عراق میں کرد عسکری تنظیم پی کے کے ‘ کے ٹھکانوں پر بھی لگاتار فضائی حملے کررہا ہے۔۔۔بظاہر یہ سارا معاملہ ترکی اور طاغوتِ اعظم امریکہ کے درمیان سمجھوتے کا حصہ نظر آتا ہے۔ترکی نے حال ہی میں امریکہ کو داعش کے خلاف اپنے دو فضائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے،لیکن اس کے بدلے ترکی کوکیا ملے گا؟امریکہ کوفضائی اڈے دینے کی اجازت کے ساتھ ہی ترکی نے داعش اور پی کے کے ‘کے ٹھکانوں پر بم باری شروع کردی۔۔۔ترکی اور امریکی سمجھوتہ کے خدوخال کچھ اس طرح دکھائی دیتے ہیں کہ ’’تم ہمیں داعش کے خلاف بم باری میں مدد دو اوربدلے میں تم پی کے کے‘کے ساتھ جو مرضی سلوک کرو‘‘۔۔۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پی کے کے ‘کے علاوہ باقی کرد سیاسی و مزاحمتی تنظیمیں جن کے آج کل امریکہ سے اچھے تعلقات ہیں وہ بھی ترکی کی طرف سے پی کے کے پر بم باری کے معاملے میں حیران کن طور پر سرداورخاموش احتجاج تک ہی محدود نظر آتی ہیں۔کرد رہ نمامسعودبارزانی بھی بم باری کے باوجود مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ہی نظر آرہا ہے۔۔۔اس سب سے تو واضح ہے کہ پی کے کے پر بم باری کے معاملہ پر ان کو بھی امریکہ کی طرف سے خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔یہ تو تھا پی کے کے پر بم باری کا معاملہ،لیکن داعش پر ترکی بم باری کیوں؟یہ وجہ بھی بہت اہم ہے۔۔۔ ترک حکومت اور کردوں میں کردستان کے مسئلہ پر بہت پرانی کشیدگی پائی جاتی ہے۔۔۔ ترکی حالیہ شام کی لڑائی میں کردوں کے خلاف داعش کی محدود مددکرکے ان دونوں فریقوں کی لڑائی میں اپنا فائدہ ڈھونڈتا رہا۔۔۔دوسری طرف امریکی دباؤ کے زیراثر ترکی کوبانی میں کردوں کی کسی نہ کسی شکل میں مددپر مجبور تھا لیکن دل سے ترکی کبھی بھی آزاد کردستان کی حمایت نہیں کرتا۔۔۔اس بات کا اظہارترکی کے موجودہ وزیراعظم نے بھی کیا او رکہا کہ ہمیں آزادکردستان کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔۔۔اس وجہ سے ترکی ان علاقوں میں کردوں کے خلاف داعش کی مدد کرتا رہا،لیکن کردملیشیات کی داعش کے خلاف حالیہ بڑی کامیابیوں نے اس علاقے کا نقشہ یکسر بدل دیا ہے۔۔۔کردملیشیات ایک طرف کوبانی اور دوسری طرف کامشلی سے پیش قدمی کرتی ہوئیں تل ابیض کے قریب آکر مل گئیں اور تل ابیض سے بھی داعش کو پسپا کردیا۔۔۔اس پیش قدمی سے کردوں کے دو صوبے (کینٹونمنٹ) کوبانی اور جزیرہ آپس میں مل گئے اور آزاد کردستان کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ دور ہو گئی۔اب کوئی دن جاتا ہے کہ کرد فرات کے کنارے واقعہ اہم دفاعی قصبے سارین پر بھی قبضہ کرلیں کیونکہ آخری خبریں آنے تک اس قصبے کا کردملیشیات نے مکمل محاصرہ کرلیا تھا۔۔۔اس سارے عمل کے بعد کردوں کا خواب حلب کے شمال میں واقع آفرین کی کینٹونمنٹ کو اپنے علاقوں سے ملانا ہے،راستے میں بڑے اہم شہر واقعہ ہیں جن پر داعش کا مکمل قبضہ تو ہے لیکن امریکی جہازوں کے سائے میں کردملیشیات جس طرح آگے بڑھ رہی ہیں او رداعش کے جنگ جوؤں کا مورال جو روزبروز گرتا جارہا ہے اس سب کودیکھتے ہوئے صاف واضح ہے کہ کرد ان علاقوں پر بھی قبضہ کرلیں گے۔لیکن ترکی نے کردوں کے ان علاقوں پر حملے سے پہلے خود داعش کے ٹھکانوں پر حملے شروع کردیے ہیں اور بفرزون قائم کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔۔۔ترکی حلب کے مزاحمت کاروں کو بھاری ہتھیاروں سے لیس کرکے ان علاقوں میں پیش قدمی کروائے گا،دوسری طرف امریکی طیاروں نے بھی جبھۃ النصرۃ کے حلب کے ٹھکانوں پر بم باری تیز کردی ہے۔۔۔مطلب صاف واضح ہے کہ ان علاقوں سے اسلام پسندوں کا صفایا کیاجائے گا۔۔۔اس ساری صورت حال میں حلب شہر کو بشار کے پنجے سے چھڑانے میں مددملے گی۔۔۔داعش جو کہ حلب میں بشار قصائی کی حلیف ہے تو داعش کے پسپا ہونے سے بشار کی سپلائی لائن غیر محفوظ ہوجائے گی۔۔۔دوسرا پہلو مزاحمت کاروں کو اسلحہ اور سپورٹ ملی تو یقیناًاسے حلب کو روافض سے پاک کرنے میں استعمال کیاجائے گا۔۔۔ترکی لازماًحلب جیسے اہم اور بڑے صنعتی شہر کو اپنے حلقۂ اثر میں لانے کے لیے ہرممکن کوشش کرے گا۔۔۔یہ وجہ ہے ترکی کی داعش پر بم باری کرنے کی!۔۔۔
حلب کی صورت حال یہ ہے کہ یہاں پچھلے ایک ماہ میں مجاہدین اور مزاحمت کاروں نے روافض کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔۔۔اس سے پہلے روافض کی لڑائی حلب کے شمالی علاقوں میں شدید تھی لیکن یہاں مجاہدین جب بھی بشاری فوج پر حملہ کرتے ہیں تو داعش کے جنگ جو الٹا مجاہدین پر حملے شروع کردیتے ہیں۔۔۔اس لیے تمام مجاہدین جماعتوں اور مزاحمت کاروں نے اس بار حلب کے مغربی حصے کو آزاد کرانے کے لیے لڑائی کاآغاز کیا کیونکہ یہاں پر داعش کی طرف سے حملے کرنے کا بظاہر کوئی خطرہ نہیں! مجاہدین اور مزاحمت کاروں نے یہاں الراشدین یمیرون اور الخالدیہ کے ضلع کے بڑے حصے سے بشاری ملیشیات کو ماربھگایا۔۔۔بشاری فوج کا ان لڑائیوں میں بڑاجانی ومالی نقصان ہوا۔۔۔مجاہدین نے حلب میں ملٹری ریسرچ سینٹر پر بھی قبضہ کرلیا جو کہ بیرل بم بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔۔۔اس سب کے باوجود مغربی طرف سے حلب کا مکمل آزاد ہوجانا ازحد مشکل ہے کیونکہ بشاری فوج حلب میں بہت مضبوط ہے ،بشار اس شہر کی اہمیت سے واقف ہے اور وہ آسانی سے شہر پر قبضہ نہیں ہونے دے گا۔حلب میں بشاری فوج کو شکست دینے کے لیے شمال کی طرف سے بشاری فوج کی سپلائی کاٹنا ضروری ہے اس سے یہ محاصرے میں آجائیں گے اور زیادہ مزاحمت نہیں کرسکیں گے لیکن بشاری فوج کی اس واحد سپلائی لائن پر داعش کا پہرہ ہے اور داعش کے لوگ بشار کی سپلائی لائن کاٹ کر حلب کے عوام کو مرنے سے بچانے کی بجائے الٹا مجاہدین پر بم باری اور خود کُش حملے کرنے میں مصروف ہیں،پچھلے تین ہفتوں میں داعش نے مجاہدین پر ۷ خودکُش بم دھماکے کیے ہیں دوسری طرف بشاری جنگی طیاروں کی بم باری بھی صرف مجاہدین کے ٹھکانوں پر کی جاتی ہے۔۔۔بہرحال حلب کے مغری علاقوں خصوصاًالخالدیہ میں شدیدلڑائی جاری ہے۔۔۔
اس ماہ شام کی اہم اور شدید ترین لڑائی الزبدانی کی لڑائی ہے جوکہ اب بھی جاری ہے۔۔۔زابدانی کے مجاہدین نے اپنے لہو سے بہادری کی وہ داستان رقم کی ہے کہ اگر جہادِ شام پر کبھی کسی نے کوئی کتاب لکھی تو زابدانی کی لڑائی کا ایک الگ اور مستقبل باب ضرور بنناچاہیے!زابدانی کا قصبہ القنطیرہ کی پہاڑیوں کے قدموں میں واقع ہے۔۔۔تقریباً۲۵ دن قبل اس قصبے پر لبنانی حزب الشیطان ملیشیا نے بشاری فوج اور فضائیہ کی مدد سے مل کر بہت بڑی تعداد اور بھاری ہتھیاروں سے لیس ہوکر حملہ کیا جب کہ شہر میں مجاہدین کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی۔۔۔تقریباًتمام تجزیہ نگار اور جہادی امور کے ماہر اس یقین کا اظہار کررہے تھے کہ زابدانی پر اتنا بڑا حملہ مجاہدین روک نہیں سکتے اور زیادہ سے زیادہ ۳،۴ دنوں میں مجاہدین پسپا ہوکر نکل جائیں گے اور روافض اس اہم دفاعی قصبے پر قابض ہو جائیں گے ۔۔۔لیکن سب کی توقعات کے برعکس مجاہدین آج ۲۵ دن سے قصبے پر جمے ہوئے ہیں بلکہ شامی لڑائیوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان حزب الشیطان کو زابدانی میں ہی پہنچا رہے ہیں۔۔۔ قصبے پر اب تک تقریباً۱۰۰ بیرل بم گرائے جاچکے ہیں جس سے آدھے سے زیادہ قصبہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے لیکن روافض ابھی تک اس پر قبضہ نہیں کرسکے!اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے ساتھ مدد کی یہ وہ عجیب نظائر ہیں جودنیا کی نظروں سے اوجھل لیکن مجاہدین کے عام مشاہدے کا معمول ہیں!
زابدانی کی اہمیت دووجوہات کی بنیاد پر ہے۔۔۔ایک تو یہ کہ یہ لبنانی سرحد کے بالکل قریب ہے اور مجاہدین کی یہاں موجودگی لبنان میں شیعہ حزب الیشطان کے لیے براہ راست خطرہ ہے،اوریہی زابدانی ایران کی طرف سے براستہ شام حزب الشیطان کی مدد کا ایک اہم اڈہ ہواکرتا تھا۔۔۔دوسری وجہ یہ ے کہ زابدانی سے ۹ کلومیٹردوروادی برادہ میں عین الفجر کے نام سے پانی کا ایک بڑا چشمہ ہے،دمشق اور اس کے نواح میں پانی یہیں سے آتا ہے۔۔۔مزاحمت کاروں نے وادئ برادہ اور عین الفجر کو فروری ۲۰۱۲ء میں بشار سے چھین لیا تھا اور اس کے بعد دمشق کا پانی بند کردیا گیا ۔۔۔اس کے بعد مزاحمت کاروں اور بشار میں پانی کے چشمے کے حوالے سے ایک سمجھوتہ ہوا جس کے مطابق یہ چشمہ مزاحمت کاروں کے کنٹرول میں رہے گا اور بدلے میں بشار ان مزاحمت کاروں پر بم باری نہیں کرے گا،لیکن یہ کمزور سا سمجھوتہ ماضی میں ۳بار ٹوٹ چکا ہے۔۔۔۳دفعہ مزاحمت کاروں نے دمشق کا پانی بند کرکے بشاری فوج کو وادی برادہ پر بم باری روکنے پر مجبور کیا،آخری دفعہ یہ پانی نومبر۲۰۱۴ء میں ۴ دن کے لیے بندکیا گیا تھا۔۔۔
زابدانی پر روافض کے قبضے سے اس کے بعد وادئ برادہ کا علاقہ بھی بشاری فوج کے سیدھا نشانہ پر آجائے گا۔۔۔اسی وجہ سے روافض اس وقت زابدانی کا محاصرہ کرکے اس پر قبضہ کی کوشش کررہے ہیں تو مجاہدین جو کہ قصبے کے اندر قصبے کا دفاع کررہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وادی برادہ کے مزاحمت کار بھی باہر سے محاصرے کے مشرقی بازو پر حملے کررہے ہیں تاکہ زابدانی کے محاصرے کو توڑا جائے اور اسے روافض کے قبضے میں جانے سے بچایا جائے۔زابدانی کی لڑائی میں امید سے زیادہ مزاحمت اور بھاری جانی نقصانات پر روافض بری طرح جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں۔۔۔ لبنانی فوج کے ایک اہل کار نے نام صیغۂ راز میں رکھنے کی شرط پر اورئنٹ ٹی وی کو بتایا کہ زبدانی کی لڑائی شروع ہونے سے ایک ہفتہ پہلے ایک ایرانی انقلابی کارڈ کا مکمل یونٹ زابدانی کے قریبی علاقے بیکا میں آچکا تھا،اس کی آمد کا مقصدزابدانی کی لڑائی کی کمان کرنا ہے۔۔۔یہ یونٹ حزب الشیطان ملیشیا ،شامی سرکاری فوج اور ایرانی الذوالفقاربریگیڈکے درمیان ہم آہنگی وانٹیلی جنس شیئرنگ کا کردار بھی ادا کرے گا۔۔۔لبنانی عسکری اہل کار نے مزید بتایا ہے کہ ایرانی قیادت حزب الشیطان کی قلمون کے پہاڑوں میں ہونے والی لڑائی میں ناکامی اوراس کے بعدزابدانی جیسے اہم قصبے پر امید کے برعکس فوری قبضہ نہ ہونے اور لگاتاربڑے جانی نقصانات کی وجہ سے حزب الشیطان سے سخت نالاں ہے۔۔۔اوراس وقت ایران کی قیادت روس سے شام کی صورت حال کے حوالے سے مزید مددمانگ رہی ہے۔۔۔
اس وقت لبنان کے اس مشرقی پہاڑی علاقے میں ہونے والی لڑائیوں کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے تقریباً۷۰؍ایرانی موجود ہیں جن میں عسکری کمانڈر،لیڈر اور عسکری ماہرین شامل ہیں۔۔۔اس سب کا مقصدلبنان کے قریب واقع اس پہاڑی سلسلے کو مجاہدین سے پاک کرکے اپنے قبضے کو دارالحکومت دمشق تک بڑھایا جائے تاکہ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب الشیطان کے گھر لبنان اور بشار کے ٹھکانے دمشق میں براہ راست زمینی راستہ دوبارہ قائم ہوجائے۔۔۔دفاعی لحاظ سے یہ روافض کی بہت بڑی کامیابی ہوگی لیکن مجاہدین اللہ تعالیٰ کے فضل اوراُسی کے احسان کی بدولت اُن کے اِس منصوبے کی راہ میں ایک ناقابل شکست رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔۔۔قلمون کی لڑائی اور اس کے بعد زابدانی کی لڑائی میں حزب الشیطان کے جانی نقصانات روافض کی برداشت سے باہر ہو چکے ہیں ۔۔۔صرف آج۲۷ جولائی ہی کی خبروں کے مطابق مجاہدین نے حزب الشیطان کے جنگ جوؤں سے بھرے ٹرک کو بارودی سرنگ دھماکے سے اُڑا دیا جس سے ۲درجن سے زیادہ رافضی جنگ جو ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔۔۔کل یعنی ۲۶جولائی کی اطلاعات کے مطابق حزب الشیطان کے ۱۹ جنگ جو مجاہدین کے حملوں میں زابدانی میں مردار ہوئے تھے۔۔۔لبنانی عسکری اہل کار نے زابدانی کے پاس ہونے والی لڑائی میں ایرانی اہل کاروں کے ہلاک ہونے کی بھی تصدیق کی ،جس میں ایرانی نیشنل گارڈ کا ایک کرنل کریم گوبش بھی ہلاک ہوا ہے۔۔۔اس وقت اس علاقے میں صرف حزب الشیطان کے ۵ہزار جنگ جو تعینات ہیں،جب کہ افغانستان اور عراق سے تعلق رکھنے والے جنگ جو ملیشیات بھی موجود ہیں جن کے جنگ جوؤں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔۔۔
لبنانی اہل کار کے مطابق حزب الشیطان اب اس لڑائی میں لبنانی فوج کو ملوث کرکے مددحاصل کرنا چاہتی ہے۔۔۔اس کے لیے حزب الشیطان نے لبنان کے گاؤں ارسل[جہاں شامی پناہ گزین رہتے ہیں]میں قتل عام کا منصوبہ بنایا تاکہ ان سنی مسلمانوں کے قتل کے جواب میں مجاہدین لبنان کے اندرداخل ہوں اور لبنانی فوج سے ان کی لڑائی ہو۔۔۔اس طرح حزب الشیطان خود مجاہدین سے لڑنے سے بچ جاتی اور دور سے بیٹھ کرتماشا دیکھتی لیکن لبنانی فوج نے بروقت اطلاع ملنے پر حزب الشیطان کے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا۔۔۔الحمدللہ مجاہدین کی بہادری اور شجاعت ان کافروں کے دلوں میں ایسی بیٹھی ہے کہ یہ خود مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں اور ایک دوسرے کو جنگ میں آگے کرتے ہیں۔۔۔
گزشتہ ماہ کے مضمون میں تذکرہ کیا گیا تھا کہ حسکہ میں داعش شہر کے کافی بڑے علاقے پر قابض ہوگئی ہے اور بشاری فوج کو شہر کے ایک مختصر سے رقبے میں محدودکر دیا ہے۔۔۔اس دوران میں کردملیشیات اس لڑائی کو دور سے دیکھ رہیں تھیں ،ہمارا تجزیہ تھا کہ کرد ملیشیا ان دوفریقوں کی لڑائی میں لازماًاپنا فائدہ اٹھانے آگے آئے گی۔۔۔لہٰذا حسکہ میں بالکل یہی ہواہے،داعش کے جنگ جو جس وقت شہر میں بشاری فوج کا محاصرہ کر کے ان کو آہستہ آہستہ جانی نقصان و پسپائی پہنچا رہے تھے اس دوران میں کرد ملیشیات نے حسکہ شہر کا محاصرہ کرلیا اورداعش کے جنگ جوؤں کی ساری سپلائی لائنز کاٹ کر ان کو محصور کرلیا۔۔۔اب تک کی آمدہ آزاداطلاعات کے مطابق حسکہ میں داعش کو بہت جانی نقصانات ہوئے ہیں اور شامی ہیومن رائٹس کے مطابق تقریباً۳۰۰ داعشی جنگ جوؤں کی کردوں کے ہاتھوں ہلاکت کی تصدیق ہوگئی ہے۔۔۔حسکہ شہر کے بہت تھوڑے علاقے میں داعش بچی ہے اور حالات یہی رہے تو کچھ دنوں میں شہر مکمل طور پر داعش سے پاک ہوجائے گا۔۔۔یہ سطورقلم بند کرتے ہوئے ہی خبرآئی کہ شمالی شام میں داعش کے سب سے بڑے فوجی مرکز سارین پربرکان الفرات[کردملیشیا اور جیش الحر کی ایک جماعت کا اتحاد] نے مکمل طورپرقبضہ کرلیا ہے۔۔۔سارین دفاعی لحاظ سے بہت اہم جگہ پرہے،یہ کوبانی، الرقہ اور جرابلس کے درمیان دریائے فرات کے کنارے واقع ہے،اس پر کردوں کے قبضے سے داعش کے مزعومہ ’’مرکز خلافت‘‘الرقہ اور جرابلس دونوں کا راستہ کھل گیا ہے۔۔۔ لیکن ترکی کی مداخلت کے بعد اب غالب امکان یہی ہے کہ کرد الرقہ کی طرف پیش قدمی کریں گے،کردوں کے خلاف ہر محاذ پر داعش کو ناکامیوں کا سامنا ہے۔۔۔
درعا کے علاقے کی صورت حال میں پچھلے ماہ کے بعد زیادہ تبدیلی نہیں آئی ، مجاہدین اورمزاحمت کاروں نے کچھ مقامات پر پیش قدمی کی ہے۔۔۔پچھلے ماہ درعا کے شہر کو آزاد کروانے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا جس میں شروع میں کافی کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی لیکن شہر کے تقریباًنصف کو آزاد کروانے کے کے بعدمزید پیش قدمی نہ ہوسکی اورکچھ انتظامی اختلافات کے باعث کارروائی روک دی گئی تھی۔۔۔لیکن اب حالیہ اطلاعات ہیں کہ درعا کی کارروائی دوبارہ شروع کردی گئی ہے اور بشاری فوج تین اطراف سے گھیرے میں آئی ہوئی ہے۔۔۔اس محاذ کی مزید تفصیلات حاصل نہ ہوسکیں کیونکہ لڑائی کے دوران میں مجاہدین دفاعی نقطہ نظر سے اپنی پوزیشنز کی اطلاع خفیہ رکھتے ہیں۔۔۔
پچھلے ماہ پامیر شہر میں بشاری فوج کو شکست دے کر داعش نے شہر پر مکمل قبضہ کرلیا تھا،اس کے بعد اطراف کی گیس فیلڈز بھی داعش کے قبضے میں آگئیں تھیں اب بشاری فوج اس شہر کو داعش سے واپس لینے کے لیے دوبارہ آگئی ہے او دوسری طرف داعش اس لڑائی کو پھیلانے کے لیے حمص کی جانب پیش قدمی کررہی ہے اورT4نامی ایک بڑے ملٹری بیس کے قریب پہنچ گئی ہے لیکن بشاری فوج اپنے توانائی کے بحران کی وجہ سے اپنی ساری توجہ پامیر کو واپس لینے کے لیے لگاتی نظر آتی ہے۔۔۔بہرحال چند ایک جھڑپوں کے علاوہ بڑی لڑائی ابھی شروع نہیں ہوئی اور دونوں اطراف لڑائی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔۔۔
ادلب کے بیش تر مقامات کو بشار سے آزادکرانے کے بعد صرف کچھ علاقے ہی بشاری شکنجے میں بچے تھے۔۔۔بشار ادلب میں علاقے واپس لینے کے لیے بہت زور لگا رہا ہے اور اندھا دھند بم باری کیے ہوئے ہے اس کے باوجود مجاہدین بشاری فوج کو اس کے مقبوضہ علاقوں سے پیچھے دھکیل کرعین الحمام ،صفافہ اورفورویہ پر قابض ہوگئے ہیں جب کہ کفیر اور قرقورکے کچھ علاقوں کو بھی آزادکرایا گیا ہے۔۔۔لڑائی کا محور اس وقت تل خطاب ہے جس کو کئی مرتبہ بشار سے چھینا گیا لیکن شدید بم باری کی وجہ سے مجاہدین کویہاں سے پسپا ہونا پڑا۔۔۔ادلب کے تقریباًوسط میں فوعااورکفریا کے شیعہ اکثریتی علاقے ہیں جو کہ مکمل طورپر مجاہدین کے محاصرے میں ہیں۔۔۔دوردور تک بھی بشار کی طرف سے مددآنے کا امکان نہیں،مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان دو قصبوں میں ۴ہزار شیعہ فوجی اور حزب الشیطان کے جنگ جو موجودہیں جو کہ مجاہدین کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔۔۔زابدانی پر بشاری طیاروں کی بم باری کے جواب میں مجاہدین نے ان علاقوں پر بم باری شروع کردی ہے۔۔۔شیعہ علاقوں اور وہاں محصور بشاری فوج و ملیشیا پر بم باری سے شیعہ علوی حلقوں میں بہت تکلیف محسوس کی گئی اور دمشق میں علوی مظاہرین نے بشار کے خلاف ان علاقوں کو مدد نہ بھیجنے پر زبردست احتجاج کیا۔۔۔مظاہرین آپے سے باہر ہوگئے اور ان پرتشدد مظاہروں میں بشاری حکومت کا ایک سیکورٹی اہل کار ہلاک جب کہ ۴ زخمی ہوگئے۔۔۔غور کرنے کا مقام ہے کہ بشارقصائی نے ہزاروں لاکھوں بم گرا کر لاکھوں اہل سنت شہید اور زخمی کیے لیکن علویوں کے سر پر جون تک نہ رینگی اب مجاہدین کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے اور وہ شیعوں کی افواج کو گھیر گھیر کر ماررہے ہیں تو یہ علوی درد سے کیسے پھڑپھڑارہے ہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کوذلیل سے ذلیل تر کرے اور عبرت ناک موت دے،آمین۔
جیش الفتح کی گزشتہ ماہ بڑی کارروائیاں ہوئیں لیکن اس ماہ ان کی زیادہ توجہ مفتوحہ علاقے کو منظم کرنے کی طرف رہی۔۔۔ادلب میں رمضان المبارک کے دوران میں داعش کی طرف سے مساجد میں عام مسلمانوں اور مجاہدین پرخودکش حملے کیے جاتے رہے بلکہ عید کے پرمسرت موقع پر بھی ان خوارج الجدید نے ایک مسجد میں بم نصب کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے دوافراد کو پکڑ لیا گیا۔۔۔اس کے بعد داعش کے خفیہ ٹھکانوں پر چھاپے مارکر ان کے سازشی عناصر کو گرفتار کرلیا گیا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان فتنہ پرور لوگوں کو ہدایت دے اور اگر ہدایت ان کی قسمت میں نہیں تو ان کو دنیا اور آخرت دونوں میں دردناک عذاب وذلت سے دوچارکرے،آمین۔
ادلب میں بشار کی صفائی کے بعد اب اندازے کے مطابق مجاہدین اگلے محاذ وسطی شام میں حما اور حمص میں کھولیں گے۔۔۔اور جیش الفتح کی یہ حالیہ وقتی خاموشی اسی لڑائی کی تیاری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق کو باطل پر کامل غلبہ عطافرما دے اورشام و افغانستان دونوں بابرکت سرزمینوں میں شریعت کا مکمل نفاذ ہوجائے اور یہیں سے اسلامی لشکر نکل کر باقی زمینوں کو نظام شریعت سے دوبارہ روشناس کروائیں-
آمین!
****
No comments:
Post a Comment