طالبان تحریک کا آغاز-----پارٹ 2
جیمز فرگوسن کی کتاب "طالبان" سے ماخوذ....
روس کے خلاف جہاد میں ہر قسم کی تنظیموں نے حصہ لیا تھا جن میں حزبِ اسلامی جیسی کٹر مذہبی جماعت سے لے کر مختلف قوم پرست جماعتیں بھی شامل تھیں-
یہ سب ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی قسم کی لڑائی سے پاک ہو کر صرف اور صرف روس کے خلاف لڑنے پہ توجہ کئے ہوئے تھے- اسی اتحاد کی وجہ سے روسی طاقت پارہ پارہ ہو سکی-
جنگ کے بعد بھی ہم خیال پرانے مجاھدین میں روابط قائم رہے- ملا ضعیف نے اپنے پرانے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ اپنے علاقے کو ان بدمعاشوں اور قاتلوں سے محفوظ بنا کر کم از کم اس علاقے میں شرعی نظام نافذ کیا جا سکے- اس کام کے لئے سب سے پہلے صالح نامی مجرموں کے سرغنہ کو ٹھکانے لگانا ضروری تھا-
1994 میں جن لوگوں سے ملا ضعیف مشورہ کرنے گیا ان میں ایک عمر نام کا مجاھد بھی تھا، جو کہ آج.ملا عمر کے نام سے جانا جاتا ہے- ملا عمر قریبی صوبے ازرگان میں پیدا ہوا تھا اور اب وہ سنگیسار نامی گاؤں رہائش پزیر تھا جو کہ قندھار شہر سے 25 کلومیٹر کی مسافت پہ تھا- 1980 میں روس کے خلاف لڑائی میں یہاں سنگیسار میں مجاھدین کا ایک اہم بیس تھا-
1988 میں روسی قبضے کے خلاف قندھار کی مشہور لڑائی میں ملا عمر اور ملا ضعیف نے مل کر حصہ لیا تھا- اس جنگ میں لڑائی کے ساتھ ساتھ وہ دونوں مل کر دشمن کے طرف سے پھینکے گئے گرینڈ فوراً اُٹھا کر واپس دشمن کی طرف پھینکتے رہے- ملا ضعیف کو آج بھی یاد تھا کہ وہ اور ملا عمر 20 میٹر کو فاصلے پہ تھے جب ایک مگ جیٹ کا بم گرا اور اس کا ایک ٹکڑا ملا عمر کی آنکھ میں جا لگا جس کی وجہ سے ملا عمر کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی-کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کے دوران ملا عمر کی انکھ کا گولہ باہر لٹک رہا تھیا جِسے عمر نے خود ہی نکال کر الگ کر دیا اور لڑائی جاری رکھی- اس واقعے کی وجہ سے عمر کی بہادری کی کافی شہرت ہوئی-
اُسی رات قندھار فتح ہو گیا اور شہر میں مجاھدین کی کامیابی کا جشن منایا گیا- ملا ضعیف کو آج بھی یاد ہے کی اس رات ہر طرف اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہیں تھیں- ایک عجیب خوشی تھی، ایک عجیب جزبہ تھا- مجاھدین میں بھائیوں جیسا پیار اور ایثار تھا، محاذ پہ ایک دوسرے کی بچانے کے لئے خود آگے ہونا عام بات تھی- ہم کو اپنی جانوں کی اور دنیا کی ذرا پرواہ نہیں تھی، ہماری نیتیں صاف تھیں، ہمارے ارادے پاک تھے اور ہم میں ہر کوئی اپنی جان قربان کر کے شہید ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار تھا- سب کچھ ایک نشہ تھا ایک جنون تھا جو دشمن کو بہا کر لے گیا-
جنگ کے بعد ملا عمر سنگیسار میں واپس آ گیا اور بیس کو مدرسے میں بدل کر وہاں پڑھانا شروع کر دیا- ملا عمر بہت نیک، خاموش طبیعت اور اپنے کام سے کان رکھنے والا شخص تھا-کسی نے اسے کبھی ہنستے یا قہقہہ لگاتے نہیں دیکھا تھا- وہ شمالی افغانستان کا ایک مثالی پشتون باشندہ تھا جس کو کسی ذاتی مفاد، علاقائی سیاست اور آگے بڑھنے اور لیڈر بننے سے کوئی سروکار نہ تھا- اس وجہ سے وہی کبھی بھی بہت مشہور کمانڈر نہ رہا تھا کیونکہ وہ جہاد کے بعد اپنی عبادات میں مصروف رہتا اور دنیاوی معاملات اور دنیاداری سے دور بھاگتا تھا- اس کا کوئی دوست نہیں تھا لیکن اس کا کوئی دشمن بھی نہیں تھا کیونکہ اس نہ کبھی کسی سے کوئی ذیادتی کی تھی اور نہ ہی اُس کا کسی سے کوئی جھگڑا ہوا تھا- اپنے ان تمام خصائل کی وجہ سے ملا عمر ملا ضعیف کی نظر میں ایک مکمل لیڈر تھا کیونکہ ایسے بااصول لوگ ہی لوگوں کو کسی مقصد پہ لا سکتے تھے-
افغانستان میں یادیں بہت گہری ہوتی ہیں اور پشتونوں میں یہ بہت ہی گہری ہوتی ہیں جہاں پہ بدلہ لینے کو معاشرے میں بہت اہمیت حاصل ہے لیکن ملا عمر کی شخصیت اور اس کا ماضی ان دونوں سے مبراء تھا-
جس دن ملا ضعیف اپنے پرانے محاز کے ساتھی ملا عمر سے اس معاملے پہ بات کرنے آیا اسی دن ملا عمر کو اللہ تعالی نے بیٹا عطا کیا تھا- اس کے دوست اور دوسری مساجد کے امام سب اس خوشی میں اکٹھے ہوئے تھے اور شکرانے کے طور پہ قران کی تلاوت کی جا رہی تھی- ملا ضعیف اپنے ساتھ آئے دو لوگوں کے ساتھ ان میں شامل ہو گیا اور مل کر کھانا کھایا- کھانے کے بعد وہ ملا عمر کو ساتھ ایک الگ کمرے میں لے گئے اور اپنا مدعا بیان کیا- منصوبہ بہت سادہ تھا- قندھار کے دو اضلاع-میوند اور پنجوائے-میں مجرموں اور غنڈوں کا خاتمہ اور مکمل شرعیت کا نفاظ تھا-
ملا عمر کو بتایا گیا کہ اسے اس کام کے لئے انہوں نے امیر چنا ہے- ملا عمر نے اپنی عادت کے عین مطابق خاموشی سے کچھ دیر ان باتوں پہ سوچا، اس کے بعد اس نے کہا کہ میں اپ کے منصوبے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں لیکن میں لیڈر نہیں بنوں گا-لیکن ہم نے بہت اصرار کیا اور آخرکار ملا عمر کو ہماری بات ماننی پڑی-آخر میں اس نے کہا کہ "سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور سب کی تقدیر وہی لکھتا ہے"-
صالح کے خلاف لڑائی کے منصوبے پہ گفتگو کے 6 ہفتے بعد 40 سے 50 لوگ سنگیسار کی مسجد میں جمع ہوئے- مٹی کی بنی اس مسجد کو اپنے سفید رنگ کی وجہ سے "سپن جماعت" یعنی سفید مسجد کہا جاتا تھا- اُس دن وہاں تحریک کے قیام اور بنیادی معاملات پہ بات چیت کی گئی، وہی تحریک جس کو آپ "طالبان" کے نام سے جانتے ہیں- ملا عمر کو امیر منتخب کیا گیا اور ویاں موجود ہر شخص نے ان کے ہاتھ پہ بیعت کی-
اس ٹحریک کا کوئی ایجنڈہ، کوئی منشور، اور نہ ہی کوئی قانون قاعدہ لکھا گیا اور اس سب کی ضرورت بھی نہیں تھی- اس تحریک کا کوئی نام بھی نہیں تجویز کیا گیا تھا بس ملا عمر اور ان کے ساتھی سادہ الفاظ میں پہلے بھی طالبان ہی کہلاتے تھے- اس اصطلاح "Taliban" کو سب سے پہلی بی.بی.سی پشتو سروس نے کیپیٹل "T" کے سے پہلے استعمال کیا اور 24 گھنٹے بعد سنگیسار کی سفید مسجد میں ہونے والی اس میٹنگ کی چھوٹی سی خبر بھی نشر کی گئی- اور اس چھوٹی سی خبر پہ کسی نے توجہ نہیں دی- اس وقت کسی کے بھی خصوصاً ملا عمر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اللہ ان کو اتنی کامیابی اور ذمہ داری سے نوازے گا-اور ساری دنیا میں ان کا نام کفار کے لئے دھشت کی علانت بن جائے گا-
جاری ہے...
No comments:
Post a Comment