طالبان تحریک کا آغاز-----پارٹ 1
اُس وقت افغانستان ایک ایسی تباہی و قتلِ عام دیکھ رہا تھا جس کی مثال سوویت روس کے قبضے کے دوران بھی نہیں دیکھی گئی تھی- 1989 کے بعد دنیا کی نظر میں افغانوں کی کوئی اہمیت نہ رہی تھی اور اس تباہی و بربادی کا علم ہونے کے باوجود مجرمانہ چشم پوشی کی جا رہی تھی-
روس کے خلاف لڑائی تب ایک قصہءپارینہ بن چکا تھا اور اس کو ماضی کا قصہ سمجھ کر ہی بھلا دیا گیا تھا-
1994 میں امریکہ کی توجہ کے اور بہت مراکز تھے- صومالیہ سے امریکی افواج واپس بلائی جا رہیں تھیں اور آگے بوسنیاء کی صورتحال تباہی کی جانب بڑھ رہی تھی- صدام حسین نے دوبارہ اپنی افواج کویتی بارڈر پہ لگا دیں تھیں اور روانڈا میں 8 لاکھ "ٹیوٹس" لوگوں کو "ہیوٹس" میلیشیاء نے گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا تھا اور ہمیشہ کی طرح یو.این.او ایک خاموش تماشائی بنا رہا-اس سب کے مقابلے میں اس لئے کابل کی تباہی کی کسی کو پرواہ نہیں تھی-
افغانستان میں کوئی حکومت اور قانون موجود نہیں تھا، اور ہر طرف چوروں، ڈاکوؤں اور مسلح گروہوں کا راج تھا جو لوگوں کو لوٹتے، قتل و غارت گری میں ملوث ہوتے اور سڑکوں پہ جگہ جگہ پہ ان لوگوں نے چیک پوسٹس بنا رکھیں تھیں جہاں گاڑیوں سے بھتہ وصول کیا جاتا- ان کی اکثریت سابقہ جنگجو پہ مشتمل تھی جن کی آمدنی کا ذریعہ امریکی مفاد کے ختم ہوتے ہی ختم ہو گیا تھا- کچھ ان میں عادی مجرم تھے- انہیں نے اپنے اپنے علاقوں میں چیک پوسٹس بنائی ہوئیں تھیں اور ان کی تعداد اتنی ذیادہ تھی کہ صرف قندھار شہر اور پاکستانی بارڈر کے درمیان 65 کلومیٹر میں 50 سے ذیادہ چیک پوسٹس تھیں جب پہ ٹریفک اے بھتہ لیا جاتا تھا- اشیاء کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ لے جانے کے لئے قیمت سے ذیادہ بھتہ ادا کرنا پڑتا اس وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء تقریباً نایاب تھیں-
قندھار کے مضافات میں "صالح" نامی ایک بدمعاش کا راج تھا جس کے لئے قتل کرنا روز کا معمول تھا اور یہ جب چاہتا جس لڑکی کو پسند کرتا اسے اٹھا کر لے جاتا- ایک ایسے ہی واقعے میں ہرات سے قندھار آتے ہوئے دو لڑکیاں اغوا ہوئیں گئیں- ان کو اسی صالح نے اغوا کیا اور ان لڑکیوں پہ تشدد اور گینگ ریپ کے بعد ان کو قتل کر کے ان کی لاشیں صالح کی ہی ایک چیک پوسٹ کے پیچھے ایک گڑھے میں پھینک دی گئیں-
قندھار شہر میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی اور یہاں دو لوکل کمانڈرز استاد عبدالحلیم اور ملا نقیب کے بیچ ایک خونی لڑائیاں جاری تھیں- ہر گلی محلے میں لاشیں تھیں اور گھروں کی تباہی سے ملبے کو ڈھیر ہر طرف دکھائی دیتے-
فضا میں بارود کی گہری بو بس گئی تھی- ان دو لوکل وارلارڈز کی ایک لڑائی چھ دن جاری رہے- چھٹے دن جمعے کے بعد لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے لڑائی رکوانے کے لئے مارچ کرنا شروع کر دیا- ان کا یہ مارچ جب کابل دروازہ چوک تک پہنچاء تو "بارو" نامی ایک سابقہ مجاھد نے لوگوں پہ ٹینک کو گولے سے فائر کئے- درجنوں لوگ اس کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے- یہ ایک مثال ہے ایسے واقعات معمول تھا- قندھار کے لوگوں نے روس کے قبضے کے دوران بھی برا وقت دیکھا تھا لیکن یہ سب بد ترین تھا- اس عرصہ کو اب بھی "ٹوپکیان" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے "مسلح افراد کا وقت"-
ذیادہ تر مذہبی کمانڈر ہتھیار رکھ کر اپنے گھروں کو چلے گئے تھے کیونکہ کہ ان کے خیال میں کافر روس کی شکست کو بعد مزید لڑائی کی کوئی وجہ نہیں رہی تھی- ایسا ہی ایک مزہبی کمانڈروں میں ایک ملا عبدالاسلام ضعیف تھے جنہوں نے 1983 میں 15 سال کی عمر میں روس کے خلاف جنگ میں حصہ لیا- اس دوران ان پہ 9 بار قاتلانہ حملے ہوئے اور دو بار جنگ میں زخمی ہوئے- ایک بار 1988 میں قندھار ایئرپورٹ کی مشہور لڑائی میں زخمی ہوئے تھے-
جنگ سے واپسی پہ انہوں نے محنت مزدوی شروع کی اور کھدائی کرنے والے مزدور کا کام کیا- 1993 میں وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی مسجد میں امامت کرانی شروع کر دی- قندھار میں لڑائی کی گھن گرج 30 میل دور مسجد میں بیٹھے ملا ضعیف کے کان بھی اکثر سنتے تھے- شہر سے آنے والے دوست اور مسافر بھی انہیں لڑائیوں اور قتلِ عام کا حال سناتے رہتے تھے- ایک دن اس کے ایک دوست عبدالمحمد نے اسے بتایا کہ کس طرح شہر سے واپسی پہ اس پہ دو ڈاکوؤں نے حملہ کیا اور ایک معجزاتی طور پہ ہی وہ اُن سے محفوظ رہا- حیرت انگیز طور پہ یہ حملہ قندھار یا اس کے آس پاس نہیں ہوا تھا بلکہ دن دیہاڑے ملا ضعیف کی مسجد کے بہت قریب ہوا تھا- ضعیف ایک صابر، امن پسند اور دھیمے مزاج کا انسان تھا لیکن اب اس کے صبر کی انتہاء ہو گئی تھی- اس نے اپنی جوانی اُن کافروں کے خلاف لڑتے ہوئے گزاری تھی جو اس کے دین اور وطن کے دشمن تھے- وہ جانتا تھا کہ دس لاکھ لوگوں نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے اپنی جان دی تھی لیکن کیا وہ مقصد ہو گیا تھا؟ کیا وہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست وجود میں آ گئے تھے جن کے حصول کے لئے اس نے اور اس کے ساتھیوں نے اتنی قربانیاں دی تھیں؟
اس سوال کا بہت واضح اور آسان جواب ضعیف کے سامنے تھا-
نہیں-
جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی!
بہت کچھ کیا جانا ابھی باقی تھا...
No comments:
Post a Comment