Saturday, 27 June 2015
ISIS militants Infiltrate into Kobane, Commit Massacre
AIDS spread among ISIS militants who raped infected Yezidi girl - #ARAnews
#Somalia Troops Vacate 3 Bases After Deadly AlShabaab Attacks
Wednesday, 24 June 2015
طالبان تحریک کا آغاز-----پارٹ 2 ----- تحریر منصور کوھستانی
طالبان تحریک کا آغاز-----پارٹ 2
جیمز فرگوسن کی کتاب "طالبان" سے ماخوذ....
روس کے خلاف جہاد میں ہر قسم کی تنظیموں نے حصہ لیا تھا جن میں حزبِ اسلامی جیسی کٹر مذہبی جماعت سے لے کر مختلف قوم پرست جماعتیں بھی شامل تھیں-
یہ سب ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی قسم کی لڑائی سے پاک ہو کر صرف اور صرف روس کے خلاف لڑنے پہ توجہ کئے ہوئے تھے- اسی اتحاد کی وجہ سے روسی طاقت پارہ پارہ ہو سکی-
جنگ کے بعد بھی ہم خیال پرانے مجاھدین میں روابط قائم رہے- ملا ضعیف نے اپنے پرانے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ اپنے علاقے کو ان بدمعاشوں اور قاتلوں سے محفوظ بنا کر کم از کم اس علاقے میں شرعی نظام نافذ کیا جا سکے- اس کام کے لئے سب سے پہلے صالح نامی مجرموں کے سرغنہ کو ٹھکانے لگانا ضروری تھا-
1994 میں جن لوگوں سے ملا ضعیف مشورہ کرنے گیا ان میں ایک عمر نام کا مجاھد بھی تھا، جو کہ آج.ملا عمر کے نام سے جانا جاتا ہے- ملا عمر قریبی صوبے ازرگان میں پیدا ہوا تھا اور اب وہ سنگیسار نامی گاؤں رہائش پزیر تھا جو کہ قندھار شہر سے 25 کلومیٹر کی مسافت پہ تھا- 1980 میں روس کے خلاف لڑائی میں یہاں سنگیسار میں مجاھدین کا ایک اہم بیس تھا-
1988 میں روسی قبضے کے خلاف قندھار کی مشہور لڑائی میں ملا عمر اور ملا ضعیف نے مل کر حصہ لیا تھا- اس جنگ میں لڑائی کے ساتھ ساتھ وہ دونوں مل کر دشمن کے طرف سے پھینکے گئے گرینڈ فوراً اُٹھا کر واپس دشمن کی طرف پھینکتے رہے- ملا ضعیف کو آج بھی یاد تھا کہ وہ اور ملا عمر 20 میٹر کو فاصلے پہ تھے جب ایک مگ جیٹ کا بم گرا اور اس کا ایک ٹکڑا ملا عمر کی آنکھ میں جا لگا جس کی وجہ سے ملا عمر کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی-کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کے دوران ملا عمر کی انکھ کا گولہ باہر لٹک رہا تھیا جِسے عمر نے خود ہی نکال کر الگ کر دیا اور لڑائی جاری رکھی- اس واقعے کی وجہ سے عمر کی بہادری کی کافی شہرت ہوئی-
اُسی رات قندھار فتح ہو گیا اور شہر میں مجاھدین کی کامیابی کا جشن منایا گیا- ملا ضعیف کو آج بھی یاد ہے کی اس رات ہر طرف اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہیں تھیں- ایک عجیب خوشی تھی، ایک عجیب جزبہ تھا- مجاھدین میں بھائیوں جیسا پیار اور ایثار تھا، محاذ پہ ایک دوسرے کی بچانے کے لئے خود آگے ہونا عام بات تھی- ہم کو اپنی جانوں کی اور دنیا کی ذرا پرواہ نہیں تھی، ہماری نیتیں صاف تھیں، ہمارے ارادے پاک تھے اور ہم میں ہر کوئی اپنی جان قربان کر کے شہید ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار تھا- سب کچھ ایک نشہ تھا ایک جنون تھا جو دشمن کو بہا کر لے گیا-
جنگ کے بعد ملا عمر سنگیسار میں واپس آ گیا اور بیس کو مدرسے میں بدل کر وہاں پڑھانا شروع کر دیا- ملا عمر بہت نیک، خاموش طبیعت اور اپنے کام سے کان رکھنے والا شخص تھا-کسی نے اسے کبھی ہنستے یا قہقہہ لگاتے نہیں دیکھا تھا- وہ شمالی افغانستان کا ایک مثالی پشتون باشندہ تھا جس کو کسی ذاتی مفاد، علاقائی سیاست اور آگے بڑھنے اور لیڈر بننے سے کوئی سروکار نہ تھا- اس وجہ سے وہی کبھی بھی بہت مشہور کمانڈر نہ رہا تھا کیونکہ وہ جہاد کے بعد اپنی عبادات میں مصروف رہتا اور دنیاوی معاملات اور دنیاداری سے دور بھاگتا تھا- اس کا کوئی دوست نہیں تھا لیکن اس کا کوئی دشمن بھی نہیں تھا کیونکہ اس نہ کبھی کسی سے کوئی ذیادتی کی تھی اور نہ ہی اُس کا کسی سے کوئی جھگڑا ہوا تھا- اپنے ان تمام خصائل کی وجہ سے ملا عمر ملا ضعیف کی نظر میں ایک مکمل لیڈر تھا کیونکہ ایسے بااصول لوگ ہی لوگوں کو کسی مقصد پہ لا سکتے تھے-
افغانستان میں یادیں بہت گہری ہوتی ہیں اور پشتونوں میں یہ بہت ہی گہری ہوتی ہیں جہاں پہ بدلہ لینے کو معاشرے میں بہت اہمیت حاصل ہے لیکن ملا عمر کی شخصیت اور اس کا ماضی ان دونوں سے مبراء تھا-
جس دن ملا ضعیف اپنے پرانے محاز کے ساتھی ملا عمر سے اس معاملے پہ بات کرنے آیا اسی دن ملا عمر کو اللہ تعالی نے بیٹا عطا کیا تھا- اس کے دوست اور دوسری مساجد کے امام سب اس خوشی میں اکٹھے ہوئے تھے اور شکرانے کے طور پہ قران کی تلاوت کی جا رہی تھی- ملا ضعیف اپنے ساتھ آئے دو لوگوں کے ساتھ ان میں شامل ہو گیا اور مل کر کھانا کھایا- کھانے کے بعد وہ ملا عمر کو ساتھ ایک الگ کمرے میں لے گئے اور اپنا مدعا بیان کیا- منصوبہ بہت سادہ تھا- قندھار کے دو اضلاع-میوند اور پنجوائے-میں مجرموں اور غنڈوں کا خاتمہ اور مکمل شرعیت کا نفاظ تھا-
ملا عمر کو بتایا گیا کہ اسے اس کام کے لئے انہوں نے امیر چنا ہے- ملا عمر نے اپنی عادت کے عین مطابق خاموشی سے کچھ دیر ان باتوں پہ سوچا، اس کے بعد اس نے کہا کہ میں اپ کے منصوبے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں لیکن میں لیڈر نہیں بنوں گا-لیکن ہم نے بہت اصرار کیا اور آخرکار ملا عمر کو ہماری بات ماننی پڑی-آخر میں اس نے کہا کہ "سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور سب کی تقدیر وہی لکھتا ہے"-
صالح کے خلاف لڑائی کے منصوبے پہ گفتگو کے 6 ہفتے بعد 40 سے 50 لوگ سنگیسار کی مسجد میں جمع ہوئے- مٹی کی بنی اس مسجد کو اپنے سفید رنگ کی وجہ سے "سپن جماعت" یعنی سفید مسجد کہا جاتا تھا- اُس دن وہاں تحریک کے قیام اور بنیادی معاملات پہ بات چیت کی گئی، وہی تحریک جس کو آپ "طالبان" کے نام سے جانتے ہیں- ملا عمر کو امیر منتخب کیا گیا اور ویاں موجود ہر شخص نے ان کے ہاتھ پہ بیعت کی-
اس ٹحریک کا کوئی ایجنڈہ، کوئی منشور، اور نہ ہی کوئی قانون قاعدہ لکھا گیا اور اس سب کی ضرورت بھی نہیں تھی- اس تحریک کا کوئی نام بھی نہیں تجویز کیا گیا تھا بس ملا عمر اور ان کے ساتھی سادہ الفاظ میں پہلے بھی طالبان ہی کہلاتے تھے- اس اصطلاح "Taliban" کو سب سے پہلی بی.بی.سی پشتو سروس نے کیپیٹل "T" کے سے پہلے استعمال کیا اور 24 گھنٹے بعد سنگیسار کی سفید مسجد میں ہونے والی اس میٹنگ کی چھوٹی سی خبر بھی نشر کی گئی- اور اس چھوٹی سی خبر پہ کسی نے توجہ نہیں دی- اس وقت کسی کے بھی خصوصاً ملا عمر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اللہ ان کو اتنی کامیابی اور ذمہ داری سے نوازے گا-اور ساری دنیا میں ان کا نام کفار کے لئے دھشت کی علانت بن جائے گا-
جاری ہے...
Monday, 22 June 2015
Another video of Syrian regime torturing civilians leaked
#Syria: leaked footage of regime soldiers violently beating a unarmed Syrian boy https://t.co/PgE4yxLkBg pic.twitter.com/nObFvKpHgZ
— Thomas van Linge (@arabthomness) June 22, 2015
Taliban captured another district in Northern Afghanistan
Saturday, 20 June 2015
AQIS spokesman Usama Mahmood statement on Warren Weinstein and Giovanni Lo Porto
English translation of statement regarding drone attack on Warren Weinstein and Giovanni Lo Porto by a brother.
[http://t.co/g4etX9r20t]
— Usamamahmood (@Usamamahmood36) June 20, 2015
Afghan Shia Fighters captured in Syria
Friday, 19 June 2015
AlShabaab claims to destroy an entire military convoy of Ethopian Army
PYD leader: YPG forces will hand over Tel Abyad city to a civil administration - #ARAnews http://t.co/dLMh4w2MIz
http://aranews.net/2015/06/pyd-leader-ypg-forces-will-hand-over-tel-abyad-city-to-a-civil-administration/?utm_source=twitter
Envoy Says Tehran Doesn’t Give Afghan Taliban Weapons or Funding
http://www.wsj.com/articles/envoy-denies-tehran-gives-afghan-taliban-weapons-and-funding-1434645429
Badakshan Province on the verge of falling into the hands of Taliban
Thursday, 18 June 2015
ISIS Advances On Aleppo Aided by Assad Regime
http://www.theguardian.com/world/2015/jun/02/syria-isis-advance-on-aleppo-aided-by-assad-regime-air-strikes-us-says?CMP=share_btn_tw
Al-Qaeda statement of eulogy for Warren Weinstein & Giovanni Lo Porto
Pakistan is Selling JF-17 Jets (most probably) to Myanmar
http://thediplomat.com/2015/06/confirmed-sino-pak-jf-17-fighter-jet-has-its-first-buyer/
Al-Qaeda: Hostages killed in US-Drone had converted to Islam
Ahmad Farouq who was an American citizen and deputy emir of Al-Qaeda in the Indian Subcontinent (Also a convert to Islam), was also killed in the operation that killed the two innocent hostages.
Rebels Vs Regime in Idlib's outskirts
طالبان تحریک کا آغاز----- پارٹ 1 ۔۔۔۔۔ (تحریر منصور کوھستانی)
طالبان تحریک کا آغاز-----پارٹ 1
اُس وقت افغانستان ایک ایسی تباہی و قتلِ عام دیکھ رہا تھا جس کی مثال سوویت روس کے قبضے کے دوران بھی نہیں دیکھی گئی تھی- 1989 کے بعد دنیا کی نظر میں افغانوں کی کوئی اہمیت نہ رہی تھی اور اس تباہی و بربادی کا علم ہونے کے باوجود مجرمانہ چشم پوشی کی جا رہی تھی-
روس کے خلاف لڑائی تب ایک قصہءپارینہ بن چکا تھا اور اس کو ماضی کا قصہ سمجھ کر ہی بھلا دیا گیا تھا-
1994 میں امریکہ کی توجہ کے اور بہت مراکز تھے- صومالیہ سے امریکی افواج واپس بلائی جا رہیں تھیں اور آگے بوسنیاء کی صورتحال تباہی کی جانب بڑھ رہی تھی- صدام حسین نے دوبارہ اپنی افواج کویتی بارڈر پہ لگا دیں تھیں اور روانڈا میں 8 لاکھ "ٹیوٹس" لوگوں کو "ہیوٹس" میلیشیاء نے گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا تھا اور ہمیشہ کی طرح یو.این.او ایک خاموش تماشائی بنا رہا-اس سب کے مقابلے میں اس لئے کابل کی تباہی کی کسی کو پرواہ نہیں تھی-
افغانستان میں کوئی حکومت اور قانون موجود نہیں تھا، اور ہر طرف چوروں، ڈاکوؤں اور مسلح گروہوں کا راج تھا جو لوگوں کو لوٹتے، قتل و غارت گری میں ملوث ہوتے اور سڑکوں پہ جگہ جگہ پہ ان لوگوں نے چیک پوسٹس بنا رکھیں تھیں جہاں گاڑیوں سے بھتہ وصول کیا جاتا- ان کی اکثریت سابقہ جنگجو پہ مشتمل تھی جن کی آمدنی کا ذریعہ امریکی مفاد کے ختم ہوتے ہی ختم ہو گیا تھا- کچھ ان میں عادی مجرم تھے- انہیں نے اپنے اپنے علاقوں میں چیک پوسٹس بنائی ہوئیں تھیں اور ان کی تعداد اتنی ذیادہ تھی کہ صرف قندھار شہر اور پاکستانی بارڈر کے درمیان 65 کلومیٹر میں 50 سے ذیادہ چیک پوسٹس تھیں جب پہ ٹریفک اے بھتہ لیا جاتا تھا- اشیاء کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ لے جانے کے لئے قیمت سے ذیادہ بھتہ ادا کرنا پڑتا اس وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء تقریباً نایاب تھیں-
قندھار کے مضافات میں "صالح" نامی ایک بدمعاش کا راج تھا جس کے لئے قتل کرنا روز کا معمول تھا اور یہ جب چاہتا جس لڑکی کو پسند کرتا اسے اٹھا کر لے جاتا- ایک ایسے ہی واقعے میں ہرات سے قندھار آتے ہوئے دو لڑکیاں اغوا ہوئیں گئیں- ان کو اسی صالح نے اغوا کیا اور ان لڑکیوں پہ تشدد اور گینگ ریپ کے بعد ان کو قتل کر کے ان کی لاشیں صالح کی ہی ایک چیک پوسٹ کے پیچھے ایک گڑھے میں پھینک دی گئیں-
قندھار شہر میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی اور یہاں دو لوکل کمانڈرز استاد عبدالحلیم اور ملا نقیب کے بیچ ایک خونی لڑائیاں جاری تھیں- ہر گلی محلے میں لاشیں تھیں اور گھروں کی تباہی سے ملبے کو ڈھیر ہر طرف دکھائی دیتے-
فضا میں بارود کی گہری بو بس گئی تھی- ان دو لوکل وارلارڈز کی ایک لڑائی چھ دن جاری رہے- چھٹے دن جمعے کے بعد لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے لڑائی رکوانے کے لئے مارچ کرنا شروع کر دیا- ان کا یہ مارچ جب کابل دروازہ چوک تک پہنچاء تو "بارو" نامی ایک سابقہ مجاھد نے لوگوں پہ ٹینک کو گولے سے فائر کئے- درجنوں لوگ اس کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے- یہ ایک مثال ہے ایسے واقعات معمول تھا- قندھار کے لوگوں نے روس کے قبضے کے دوران بھی برا وقت دیکھا تھا لیکن یہ سب بد ترین تھا- اس عرصہ کو اب بھی "ٹوپکیان" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے "مسلح افراد کا وقت"-
ذیادہ تر مذہبی کمانڈر ہتھیار رکھ کر اپنے گھروں کو چلے گئے تھے کیونکہ کہ ان کے خیال میں کافر روس کی شکست کو بعد مزید لڑائی کی کوئی وجہ نہیں رہی تھی- ایسا ہی ایک مزہبی کمانڈروں میں ایک ملا عبدالاسلام ضعیف تھے جنہوں نے 1983 میں 15 سال کی عمر میں روس کے خلاف جنگ میں حصہ لیا- اس دوران ان پہ 9 بار قاتلانہ حملے ہوئے اور دو بار جنگ میں زخمی ہوئے- ایک بار 1988 میں قندھار ایئرپورٹ کی مشہور لڑائی میں زخمی ہوئے تھے-
جنگ سے واپسی پہ انہوں نے محنت مزدوی شروع کی اور کھدائی کرنے والے مزدور کا کام کیا- 1993 میں وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی مسجد میں امامت کرانی شروع کر دی- قندھار میں لڑائی کی گھن گرج 30 میل دور مسجد میں بیٹھے ملا ضعیف کے کان بھی اکثر سنتے تھے- شہر سے آنے والے دوست اور مسافر بھی انہیں لڑائیوں اور قتلِ عام کا حال سناتے رہتے تھے- ایک دن اس کے ایک دوست عبدالمحمد نے اسے بتایا کہ کس طرح شہر سے واپسی پہ اس پہ دو ڈاکوؤں نے حملہ کیا اور ایک معجزاتی طور پہ ہی وہ اُن سے محفوظ رہا- حیرت انگیز طور پہ یہ حملہ قندھار یا اس کے آس پاس نہیں ہوا تھا بلکہ دن دیہاڑے ملا ضعیف کی مسجد کے بہت قریب ہوا تھا- ضعیف ایک صابر، امن پسند اور دھیمے مزاج کا انسان تھا لیکن اب اس کے صبر کی انتہاء ہو گئی تھی- اس نے اپنی جوانی اُن کافروں کے خلاف لڑتے ہوئے گزاری تھی جو اس کے دین اور وطن کے دشمن تھے- وہ جانتا تھا کہ دس لاکھ لوگوں نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے اپنی جان دی تھی لیکن کیا وہ مقصد ہو گیا تھا؟ کیا وہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست وجود میں آ گئے تھے جن کے حصول کے لئے اس نے اور اس کے ساتھیوں نے اتنی قربانیاں دی تھیں؟
اس سوال کا بہت واضح اور آسان جواب ضعیف کے سامنے تھا-
نہیں-
جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی!
بہت کچھ کیا جانا ابھی باقی تھا...