Saturday, 27 June 2015

ISIS militants Infiltrate into Kobane, Commit Massacre

Kobane, Syria – Militants of the Islamic State (IS/ISIS) infiltrated Thursday into the city of Kobane (Ain al-Arab) in the province of Aleppo, and seized control of a number of buildings downtown, local activists reported. Baran Mesko, a media activist based in Kobane, told ARA News that about a hundred militants were able to infiltrate the city at dawn of Thursday, coming from the southern countryside and disguised by uniforms of the Free Syrian Army’s (FSA) fighters. “The militants took control of a number of high buildings in the city, deploying dozens of snipers on the roofs,” he added. Mesko reported that about seven car bomb attacks hit the city, leaving more than 40 people dead and 100 others injured, amid the exodus of civilians from the city towards the Turkish border. According to the same source, civilians are stuck in their homes because of IS snipers who topped high buildings in Maktalah area and hospital of Doctors Without Borders (MSF), coinciding with clashes between attackers and fighters of the People’s Protection Units (YPG) at several points of the city. According to ARA News reporter on the Syrian-Turkish border, IS militants have targeted civilians in the streets, while clashes are taking place in the 48th Street, the area around the Gas Station of Mustafa Darwish, the headquarters of Secondary School and seat of government of Kobane Canton (linked to the Auto-Administration) Many dead bodies and wounded were seen in the streets of the city, without being able to lift them because of pro-IS snipers on the buildings. In the meantime, a suicide IS bomber attacked Thursday afternoon the border gate between Kobane in northern Syria and Turkish town of Mürşitpınar, causing dozens of casualties among civilians and military personnel. Speaking to ARA News, Amin Mohammed, a resident of Kobane reported that an IS suicidal militant blew himself up among dozens of wounded civilians and military personnel who were waiting permission from Turkish authorities to get access for treatment in Turkey. “Those wounded have turned into Martyrs in moments,” he said. On the other hand, the clashes are still continuing between the radical group and Kurdish fighters of the YPG, coinciding with sorties by the U.S.-led coalition’s warplanes.

AIDS spread among ISIS militants who raped infected Yezidi girl - #ARAnews

ARA News Damascus, Syria – An Indonesian fighter in the ranks of the Islamic State group (IS/ISIS) passed AIDS on to his Yezidi sex slave. The same slave has been later sold to other members of the radical group, causing a state of panic in the ranks of IS in Shaddadi city, northeast Syria. On Wednesday, Syrian human rights activist group ‘Sound and Picture’ reported the spread of AIDS among a group of IS militants in Shaddadi city in Hasakah province. “The infected Indonesian militant passed the disease on to his 15-year-old Yezidi sex slave, who brought it further to other militants after being repeatedly sold,” a Syrian local activist told ARA News on the condition of anonymity. The Indonesian militant has also donated blood at an IS-held hospital in Shaddadi, before being tested positive with AIDS, which raised the group’s concerns about possible infection of dozens other militants. The source added that the Yezidi girl was sold to an Egyptian fighter, “who was also confirmed positive with AIDS”. “IS executed the Indonesian fighter for spreading the diseases among the militants,” the source reported. Medical sources in the IS-held province of Deir ez-Zor reported Wednesday that AIDS has spread to several other militants who raped the same Yezidi girl. Among the infected militants are two Saudi nationals and an Egyptian. Reporting by: Laila Majdalawi

#Somalia Troops Vacate 3 Bases After Deadly AlShabaab Attacks

#Somalia troops vacate 3 bases in Lower Shabelle a day after deadly #AlShabaab assault on #AMISOM base in the region. https://shar.es/1q7joH

Wednesday, 24 June 2015

Taliban recruited new fighters in Afghanistan

طالبان تحریک کا آغاز-----پارٹ 2 ----- تحریر منصور کوھستانی

طالبان تحریک کا آغاز-----پارٹ 2

جیمز فرگوسن کی کتاب "طالبان" سے ماخوذ....

روس کے خلاف جہاد میں ہر قسم کی تنظیموں نے حصہ لیا تھا جن میں حزبِ اسلامی جیسی کٹر مذہبی جماعت سے لے کر مختلف قوم پرست جماعتیں بھی شامل تھیں-
یہ سب ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی قسم کی لڑائی سے پاک ہو کر صرف اور صرف روس کے خلاف لڑنے پہ توجہ کئے ہوئے تھے- اسی اتحاد کی وجہ سے روسی طاقت پارہ پارہ ہو سکی-
جنگ کے بعد بھی ہم خیال پرانے مجاھدین میں روابط قائم رہے- ملا ضعیف نے اپنے پرانے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ اپنے علاقے کو ان بدمعاشوں اور قاتلوں سے محفوظ بنا کر کم از کم اس علاقے میں شرعی نظام نافذ کیا جا سکے- اس کام کے لئے سب سے پہلے صالح نامی مجرموں کے سرغنہ کو ٹھکانے لگانا ضروری تھا-
1994 میں جن لوگوں سے ملا ضعیف مشورہ کرنے گیا ان میں ایک عمر نام کا مجاھد بھی تھا، جو کہ آج.ملا عمر کے نام سے جانا جاتا ہے- ملا عمر قریبی صوبے ازرگان میں پیدا ہوا تھا اور اب وہ سنگیسار نامی گاؤں رہائش پزیر تھا جو کہ قندھار شہر سے 25 کلومیٹر کی مسافت پہ تھا- 1980 میں روس کے خلاف لڑائی میں یہاں سنگیسار میں مجاھدین کا ایک اہم بیس تھا-
1988 میں روسی قبضے کے خلاف قندھار کی مشہور لڑائی میں ملا عمر اور ملا ضعیف نے مل کر حصہ لیا تھا- اس جنگ میں لڑائی کے ساتھ ساتھ وہ دونوں مل کر دشمن کے طرف سے پھینکے گئے گرینڈ فوراً اُٹھا کر واپس دشمن کی طرف پھینکتے رہے- ملا ضعیف کو آج بھی یاد تھا کہ وہ اور ملا عمر 20 میٹر کو فاصلے پہ تھے جب ایک مگ جیٹ کا بم گرا اور اس کا ایک ٹکڑا ملا عمر کی آنکھ میں جا لگا جس کی وجہ سے ملا عمر کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی-کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لڑائی کے دوران ملا عمر کی انکھ کا گولہ باہر لٹک رہا تھیا جِسے عمر نے خود ہی نکال کر الگ کر دیا اور لڑائی جاری رکھی- اس واقعے کی وجہ سے عمر کی بہادری کی کافی شہرت ہوئی-
اُسی رات قندھار فتح ہو گیا اور شہر میں مجاھدین کی کامیابی کا جشن منایا گیا- ملا ضعیف کو آج بھی یاد ہے کی اس رات ہر طرف اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہیں تھیں- ایک عجیب خوشی تھی، ایک عجیب جزبہ تھا- مجاھدین میں بھائیوں جیسا پیار اور ایثار تھا، محاذ پہ ایک دوسرے کی بچانے کے لئے خود آگے ہونا عام بات تھی- ہم کو اپنی جانوں کی اور دنیا کی ذرا پرواہ نہیں تھی، ہماری نیتیں صاف تھیں، ہمارے ارادے پاک تھے اور ہم میں ہر کوئی اپنی جان قربان کر کے شہید ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار تھا- سب کچھ ایک نشہ تھا ایک جنون تھا جو دشمن کو بہا کر لے گیا-
جنگ کے بعد ملا عمر سنگیسار میں واپس آ گیا اور بیس کو مدرسے میں بدل کر وہاں پڑھانا شروع کر دیا- ملا عمر بہت نیک، خاموش طبیعت اور اپنے کام سے کان رکھنے والا شخص تھا-کسی نے اسے کبھی ہنستے یا قہقہہ لگاتے نہیں دیکھا تھا- وہ شمالی افغانستان کا ایک مثالی پشتون باشندہ تھا جس کو کسی ذاتی مفاد، علاقائی سیاست اور آگے بڑھنے اور لیڈر بننے سے کوئی سروکار نہ تھا- اس وجہ سے وہی کبھی بھی بہت مشہور کمانڈر نہ رہا تھا کیونکہ وہ جہاد کے بعد اپنی عبادات میں مصروف رہتا اور دنیاوی معاملات اور دنیاداری سے دور بھاگتا تھا- اس کا کوئی دوست نہیں تھا لیکن اس کا کوئی دشمن بھی نہیں تھا کیونکہ اس نہ کبھی کسی سے کوئی ذیادتی کی تھی اور نہ ہی اُس کا کسی سے کوئی جھگڑا ہوا تھا- اپنے ان تمام خصائل کی وجہ سے ملا عمر ملا ضعیف کی نظر میں ایک مکمل لیڈر تھا کیونکہ ایسے بااصول لوگ ہی لوگوں کو کسی مقصد پہ لا سکتے تھے-
افغانستان میں یادیں بہت گہری ہوتی ہیں اور پشتونوں میں یہ بہت ہی گہری ہوتی ہیں جہاں پہ بدلہ لینے کو معاشرے میں بہت اہمیت حاصل ہے لیکن ملا عمر کی شخصیت اور اس کا ماضی ان دونوں سے مبراء تھا-
جس دن ملا ضعیف اپنے پرانے محاز کے ساتھی ملا عمر سے اس معاملے پہ بات کرنے آیا اسی دن ملا عمر کو اللہ تعالی نے بیٹا عطا کیا تھا- اس کے دوست اور دوسری مساجد کے امام سب اس خوشی میں اکٹھے ہوئے تھے اور شکرانے کے طور پہ قران کی تلاوت کی جا رہی تھی- ملا ضعیف اپنے ساتھ آئے دو لوگوں کے ساتھ ان میں شامل ہو گیا اور مل کر کھانا کھایا- کھانے کے بعد وہ ملا عمر کو ساتھ ایک الگ کمرے میں لے گئے اور اپنا مدعا بیان کیا- منصوبہ بہت سادہ تھا- قندھار کے دو اضلاع-میوند اور پنجوائے-میں مجرموں اور غنڈوں کا خاتمہ اور مکمل شرعیت کا نفاظ تھا-
ملا عمر کو بتایا گیا کہ اسے اس کام کے لئے انہوں نے امیر چنا ہے- ملا عمر نے اپنی عادت کے عین مطابق خاموشی سے کچھ دیر ان باتوں پہ سوچا، اس کے بعد اس نے کہا کہ میں اپ کے منصوبے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں لیکن میں لیڈر نہیں بنوں گا-لیکن ہم نے بہت اصرار کیا اور آخرکار ملا عمر کو ہماری بات ماننی پڑی-آخر میں اس نے کہا کہ "سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور سب کی تقدیر وہی لکھتا ہے"-
صالح کے خلاف لڑائی کے منصوبے پہ گفتگو کے 6 ہفتے بعد 40 سے 50 لوگ سنگیسار کی مسجد میں جمع ہوئے- مٹی کی بنی اس مسجد کو اپنے سفید رنگ کی وجہ سے "سپن جماعت" یعنی سفید مسجد کہا جاتا تھا- اُس دن وہاں تحریک کے قیام اور بنیادی معاملات پہ بات چیت کی گئی، وہی تحریک جس کو آپ "طالبان" کے نام سے جانتے ہیں- ملا عمر کو امیر منتخب کیا گیا اور ویاں موجود ہر شخص نے ان کے ہاتھ پہ بیعت کی-
اس ٹحریک کا کوئی ایجنڈہ، کوئی منشور، اور نہ ہی کوئی قانون قاعدہ لکھا گیا اور اس سب کی ضرورت بھی نہیں تھی- اس تحریک کا کوئی نام بھی نہیں تجویز کیا گیا تھا بس ملا عمر اور ان کے ساتھی سادہ الفاظ میں پہلے بھی طالبان ہی کہلاتے تھے- اس اصطلاح "Taliban" کو سب سے پہلی بی.بی.سی پشتو سروس نے کیپیٹل "T" کے سے پہلے استعمال کیا اور 24 گھنٹے بعد سنگیسار کی سفید مسجد میں ہونے والی اس  میٹنگ کی چھوٹی سی خبر بھی نشر کی گئی- اور اس چھوٹی سی خبر پہ کسی نے توجہ نہیں دی- اس وقت کسی کے بھی خصوصاً ملا عمر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اللہ ان کو اتنی کامیابی اور ذمہ داری سے نوازے گا-اور ساری دنیا میں ان کا نام کفار کے لئے دھشت کی علانت بن جائے گا-

جاری ہے...

Rebels move deeper into Aleppo city

http://syriadirect.org/news/syria-direct-news-update-6-22-15/

Monday, 22 June 2015

Taliban released pictures of captured district center

Dashti Archi District of Kunduz/Badakhshan captured by Taliban yesterday.

Another video of Syrian regime torturing civilians leaked

Taliban captured another district in Northern Afghanistan

An Afghan official says the Taliban have captured a second district in the northern province of Kunduz following intense clashes with local security forces.
Mohammad Yusuf Ayubi, head of the provincial council, said on June 22 that the insurgents attacked the district of Dashti Archi from four directions, setting off heavy fighting before acquiring full control of the area.
Ayubi said local forces suffered casualties but could not give a precise toll.
He says around 150,000 residents of the district were unable to leave.
In an e-mailed statement, the Taliban confirmed that they had captured the district, as well as ammunition and four tanks.
On June 21, the Taliban seized control of the Chardara district in Kunduz on June 21.
The insurgents in April tried to capture the provincial capital, also called Kunduz, in a suprise attack, but were eventually pushed back by Afghan forces.
Security forces in northern Afghanistan said on June 21 that they were preparing to launch a counteroffensive against Taliban militants.
The Interior Ministry announced on June 21 that government forces had regained control of Yamgan district in the northeastern province of Badakhshan.

Saturday, 20 June 2015

AQIS spokesman Usama Mahmood statement on Warren Weinstein and Giovanni Lo Porto

Afghan Shia Fighters captured in Syria

Al-Qaeda in Syria group Jabhat Al-Nusra captured Afghani Shia fighters in Deraa, near Damascus. Some of whom admitted they were given salary by Iran to fight on behalf of Bashar Al-Assad.


Friday, 19 June 2015

AlShabaab claims to destroy an entire military convoy of Ethopian Army

AlShabaab claims to have destroyed 13 Ethiopian vehicles & killed more than 60 "Ethiopian crusaders’ in the ambush. AlShabaab releases photos of last week's ambush on #Ethiopia convoy, shows burning military trucks & slain soldiers.

PYD leader: YPG forces will hand over Tel Abyad city to a civil administration - #ARAnews http://t.co/dLMh4w2MIz

http://aranews.net/2015/06/pyd-leader-ypg-forces-will-hand-over-tel-abyad-city-to-a-civil-administration/?utm_source=twitter

Envoy Says Tehran Doesn’t Give Afghan Taliban Weapons or Funding

http://www.wsj.com/articles/envoy-denies-tehran-gives-afghan-taliban-weapons-and-funding-1434645429

Badakshan Province on the verge of falling into the hands of Taliban

Last months, hundreds of Taliban fighters attacked army and police installations around the northern Afghan city of Kunduz. The battle is still raging, with heavy casualties on both sides.

Two weeks prior to the offensive in Kunduz city an estimated 1,000 Taliban fighters overran Afghan army positions in Jurm District in Badakhshan Province. Additionally, heavy fighting has been reported in several other provinces, including Sar-i-Pul, Jowzjan and Faryab the New York Times reports.

Muhammad Yousuf Ayoubi, the provincial council chief, reiterated the vice-governor’s deep concerns: “Kunduz city is surrounded from four directions. If the government does not pay urgent attention, there is serious risk of it falling to the Taliban.”


Some of the pictures released by Taliban sources on twitters:

Afghan Taliban shaking hands after capturing the base.


Two more Military installations overran by Taliban in Kunduz city of Badakhshan Province.


Afghan Army Men captured by Taliban in Northern Afghanistan.

Afghan Taliban doing victory parade in Imam Sahb District which they captured last month.


Govt allied Militia (Arbaki) men captured by Taliban, pic and details released by Al-Emarah Studio.

Afghan National Media still denies that Taliban overran majority of the Northern Afghanistan but the independent sources shows a different side of the story. Tajikistan deploying additional forces on its border with Afghanistan shows the seriousness of Afghan Taliban Offensive in Northern province of Badakhshan. Afghan Officials also verified last month that 11+ districts of the province have fallen to Taliban.

Thursday, 18 June 2015

ISIS Advances On Aleppo Aided by Assad Regime

http://www.theguardian.com/world/2015/jun/02/syria-isis-advance-on-aleppo-aided-by-assad-regime-air-strikes-us-says?CMP=share_btn_tw

Al-Qaeda statement of eulogy for Warren Weinstein & Giovanni Lo Porto

According to Al-Qaeda in Indian Subcontinent, Warren Weinstein & Giovanni Lo Porto converted to Islam and their new names were Ishaaq & Muhammad.


via-@Usamamahmood36
Al-Qaeda in Indian Subcontinent| Statement:
1.Warren Wienstien (rh) & Jiovani Loporto (rh) accepted #Islam before they were martyred by ‪#‎US‬ Drone-Strike
2.Ustad Usama Mahmoodح: After Warren Wienstien (rh) reverted to #Islam, he did not remain prisoner, the Mujahideen became his protector.
3.Warren Wienstien (رح) had changed his name to Is'haaq & the Mujahideen of Al-Qaeda called him Uncle Is'haaq out of Love & Respect.
4.Manners of Mujahidin, Research of Quran & Lectures of Imam Anwar al-Awlaqiرح helped Uncle Is'haaq a.k.a Warren Wienstienرح revert to #Islam
5.In the Headquarter, Every Mujahid considered Uncle Is'haaq (Warren Wienstienرح) as his Senior & loved one & they would look after him.
6.After Uncle Is'haaq (Warren Wienstienرح) reverted to Islam, he prayed (Salaah), Fast (Siyaam), remembered Allah (Zikr) & prayed Nawafils.
7.It was the wish of Uncle Is'haaq (Warren Wienstienرح) to be exchanged 4 sister Afia Siddiqi, he wanted to free her from #US oppression.
8.Also it was a great wish of Uncle Is'haaq (Warren Wienstienرح) that his wife, children & family accept#Islam
9.After the martyrdom of Uncle Is'haaq (Warren Wienstienرح), a very pleasant smell was emitting out from his body & spread to a great distance.
10.There are great sign for the people of intellect in how Warren Wienstienرح accepted Islam & then became brother of mujahidin & then martyred.

Pakistan is Selling JF-17 Jets (most probably) to Myanmar

http://thediplomat.com/2015/06/confirmed-sino-pak-jf-17-fighter-jet-has-its-first-buyer/

Al-Qaeda: Hostages killed in US-Drone had converted to Islam

Al-Qaeda Branch in Indian subcontinent (‪#‎AQIS‬) claims that the U.S & Italian hostages Warren Weinstein & Giovanni Lo Porto who were accidentally killed in a US drone in Pakistan had converted to Islam. AQIS released few pictures of victims praying:
 
Ahmad Farouq who was an American citizen and deputy emir of Al-Qaeda in the Indian Subcontinent (Also a convert to Islam), was also killed in the operation that killed the two innocent hostages.
Picture of victim released by Al-Qaeda


Warren Weinstein and Giovanni Lo Porto 

Rebels Vs Regime in Idlib's outskirts

Al-Nusra Front (Al-Qaeda Syrian Wing) in intense clashes with Syrian regime forces in Tel khattab



Taliban attack on Afghan Forces killed 6 soldiers killed wounded 15.

طالبان تحریک کا آغاز----- پارٹ 1 ۔۔۔۔۔ (تحریر منصور کوھستانی)


طالبان تحریک کا آغاز-----پارٹ 1

جیمز فرگوسن کی کتاب "طالبان" سے ماخوذ....

اج کل جب کہ ہم افغانستان میں برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی خبر سنتے ہیں تو افغانستان کا خیال ہی بہت خطرناک اور دہشت انگیز لگتا ہے لیکن 1994 میں جب طالبان کی تحریک کا وجود عمل میں آیا اُس سے پہلے کا افغانستان آج کے افغانستان کے مقابلے میں کہیں ذیادہ پُر آشوب اور وحشت ناک تھا- روشین فیڈریشن جس نے اپنا دس سالہ قبضہ 1989 میں ختم کر دیا تھا اور واپس پسپائی میں عافیت جانی تھی اُس کے جانے کے بعد وہ قوم پرست، قبائلی اور مذہبی تمام قسم کے لیڈران جو روس کو شکست دینے میں متحد ہوئے تھے اور مجاھدین کہلاتے تھے ان میں اکثر آپس میں دست و گیریبان تھے- 1994 کے پہلے 6 ماہ میں صرف کابل شہر پہ قبضے کے خونی لڑائی میں 25000 عام شہری ہلاک ہو گئے.
اُس وقت افغانستان ایک ایسی تباہی و قتلِ عام دیکھ رہا تھا جس کی مثال سوویت روس کے قبضے کے دوران بھی نہیں دیکھی گئی تھی- 1989 کے بعد دنیا کی نظر میں افغانوں کی کوئی اہمیت نہ رہی تھی اور اس تباہی و بربادی کا علم ہونے کے باوجود مجرمانہ چشم پوشی کی جا رہی تھی-
روس کے خلاف لڑائی تب ایک قصہءپارینہ بن چکا تھا اور اس کو ماضی کا قصہ سمجھ کر ہی بھلا دیا گیا تھا-
1994 میں امریکہ کی توجہ کے اور بہت مراکز تھے- صومالیہ سے امریکی افواج واپس بلائی جا رہیں تھیں اور آگے بوسنیاء کی صورتحال تباہی کی جانب بڑھ رہی تھی- صدام حسین نے دوبارہ اپنی افواج کویتی بارڈر پہ لگا دیں تھیں اور روانڈا میں 8 لاکھ "ٹیوٹس" لوگوں کو "ہیوٹس" میلیشیاء نے گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا تھا اور ہمیشہ کی طرح یو.این.او ایک خاموش تماشائی بنا رہا-اس سب کے مقابلے میں اس لئے کابل کی تباہی کی کسی کو پرواہ نہیں تھی-
افغانستان میں کوئی حکومت اور قانون موجود نہیں تھا، اور ہر طرف چوروں، ڈاکوؤں اور مسلح گروہوں کا راج تھا جو لوگوں کو لوٹتے، قتل و غارت گری میں ملوث ہوتے اور سڑکوں پہ جگہ جگہ پہ ان لوگوں نے چیک پوسٹس بنا رکھیں تھیں جہاں گاڑیوں سے بھتہ وصول کیا جاتا- ان کی اکثریت سابقہ جنگجو پہ مشتمل تھی  جن کی آمدنی کا ذریعہ امریکی مفاد کے ختم ہوتے ہی ختم ہو گیا تھا- کچھ ان میں عادی مجرم تھے- انہیں نے اپنے اپنے علاقوں میں چیک پوسٹس بنائی ہوئیں تھیں اور ان کی تعداد اتنی ذیادہ تھی کہ صرف قندھار شہر اور پاکستانی بارڈر کے درمیان 65 کلومیٹر میں  50 سے ذیادہ چیک پوسٹس تھیں جب پہ ٹریفک اے بھتہ لیا جاتا تھا- اشیاء کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ لے جانے کے لئے قیمت سے ذیادہ بھتہ ادا کرنا پڑتا اس وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء تقریباً نایاب تھیں-
قندھار کے مضافات میں "صالح" نامی ایک بدمعاش کا راج تھا جس کے لئے قتل کرنا روز کا معمول تھا اور یہ جب چاہتا جس لڑکی کو پسند کرتا اسے اٹھا کر لے جاتا- ایک ایسے ہی واقعے میں ہرات سے قندھار آتے ہوئے دو لڑکیاں اغوا ہوئیں گئیں- ان کو اسی صالح نے اغوا کیا اور ان لڑکیوں پہ تشدد اور گینگ ریپ کے بعد ان کو قتل کر کے ان کی لاشیں صالح کی ہی ایک چیک پوسٹ کے پیچھے ایک گڑھے میں پھینک دی گئیں-
قندھار شہر میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی اور یہاں دو لوکل کمانڈرز استاد عبدالحلیم اور ملا نقیب کے بیچ ایک خونی لڑائیاں جاری تھیں- ہر گلی محلے میں لاشیں تھیں اور گھروں کی تباہی سے ملبے کو ڈھیر ہر طرف دکھائی دیتے-
فضا میں بارود کی گہری بو بس گئی تھی- ان دو لوکل وارلارڈز کی ایک لڑائی چھ دن جاری رہے- چھٹے دن جمعے کے بعد لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے لڑائی رکوانے کے لئے مارچ کرنا شروع کر دیا- ان کا یہ مارچ جب کابل دروازہ چوک تک پہنچاء تو "بارو" نامی ایک سابقہ مجاھد نے لوگوں پہ ٹینک کو گولے سے فائر کئے- درجنوں لوگ اس کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے- یہ ایک مثال ہے ایسے واقعات معمول تھا- قندھار کے لوگوں نے روس کے قبضے کے دوران بھی برا وقت دیکھا تھا لیکن یہ سب بد ترین تھا- اس عرصہ کو اب بھی "ٹوپکیان" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے "مسلح افراد کا وقت"- 
ذیادہ تر مذہبی کمانڈر ہتھیار رکھ کر اپنے گھروں کو چلے گئے تھے کیونکہ کہ ان کے خیال میں کافر روس کی شکست کو بعد مزید لڑائی کی کوئی وجہ نہیں رہی تھی- ایسا ہی ایک مزہبی کمانڈروں میں ایک ملا عبدالاسلام ضعیف تھے جنہوں نے 1983 میں 15 سال کی عمر میں روس کے خلاف جنگ میں حصہ لیا- اس دوران ان پہ 9 بار قاتلانہ حملے ہوئے اور دو بار جنگ میں زخمی ہوئے- ایک بار 1988 میں قندھار ایئرپورٹ کی مشہور لڑائی میں زخمی ہوئے تھے- 
جنگ سے واپسی پہ انہوں نے محنت مزدوی شروع کی اور کھدائی کرنے والے مزدور کا کام کیا- 1993 میں وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی مسجد میں امامت کرانی شروع کر دی- قندھار میں لڑائی کی گھن گرج 30 میل دور مسجد میں بیٹھے ملا ضعیف کے کان بھی اکثر سنتے تھے- شہر سے آنے والے دوست اور مسافر بھی انہیں لڑائیوں اور قتلِ عام کا حال سناتے رہتے تھے- ایک دن اس کے ایک دوست عبدالمحمد نے اسے بتایا کہ کس طرح شہر سے واپسی پہ اس پہ دو ڈاکوؤں نے حملہ کیا اور ایک معجزاتی طور پہ ہی وہ اُن سے محفوظ رہا- حیرت انگیز طور پہ یہ حملہ قندھار یا اس کے آس پاس نہیں ہوا تھا بلکہ دن دیہاڑے ملا ضعیف کی مسجد کے بہت قریب ہوا تھا- ضعیف ایک صابر، امن پسند اور دھیمے مزاج کا انسان تھا لیکن اب اس کے صبر کی انتہاء ہو گئی تھی- اس نے اپنی جوانی اُن کافروں کے خلاف لڑتے ہوئے گزاری تھی جو اس کے دین اور وطن کے دشمن تھے- وہ جانتا تھا کہ دس لاکھ لوگوں نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے اپنی جان دی تھی لیکن کیا وہ مقصد ہو گیا تھا؟ کیا وہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست وجود میں آ گئے تھے جن کے حصول کے لئے اس نے اور اس کے ساتھیوں نے اتنی قربانیاں دی تھیں؟
اس سوال کا بہت واضح اور آسان جواب ضعیف کے سامنے تھا-
نہیں-
جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی!

کچھ کیا جانا باقی تھا.....
بہت کچھ کیا جانا ابھی باقی تھا...


جاری ہے....

Wednesday, 17 June 2015

New Press Release by Afghan Taliban Officials about the ongoing operation Azm:

http://justpaste.it/lto2

Taliban and ISIS comes face to face.

Afghan Taliban Letter to ISIS leader Abu Bakr Al-Baghdadi by Mullah Akhtar Mansoor the Deputy of Mullah Umar. Letter is on behalf of the entire Afghan Taliban Shura council.
ISIS Afghanistan wing Commander Wafadar from Orakzai tribal area of Pakistan, killed in clashes with Taliban in Nangarhar, Afghanistan.

AQAP has immediately chosen a new Amir

Qassim Al-Raymi have been elected as a new head of Al-Qaeda in Yemen.